Tuesday, August 23, 2016

No More A Walkover خاموشی کی دیواریں


سجاد احمد
کیا آپ نے کسی ایسی اہم شخصیت کو دیکھا ہے جسے اپنے پروٹوکوک کا ہی علم نہ ہو؟ جو بس میں سفر کررہی لیکن اس کے سیکورٹی گارڈ کار میں گھومتے ہوں؟دوشفٹوں میں پانچ پانچ محافطوں کی نگرانی میں رہنے والی وزیراعظم نریندرمودی کی یشوبین نے طویل عرصہ پر خاموشی توڑی بھی تو اس قسم کے سوالات کیساتھ۔عجیب بات تو یہ ہے کہ گذشتہ مئی میں ہندوستان میں ہوئے عام انتخابات سے پہلے ملک کے 5 ’بیچلرز‘ یاکنوارے رہنماو ں کے نام سامنے آ رہے تھے۔ نریندر مودی، راہل گاندھی، مایا وتی، جے للتا اور ممتا بنرجی لیکن اس کا کیا کیجئے کہ کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے وقت نریندر مودی کا نام اس لسٹ سے باہر ہوگیا کیونکہ انھوں نے اپنا نام ’شادی شدہ کے زمرہ‘ میںپیش کیا تھا۔اور اس طرح عوامی زندگی میں پہلی بار ان کی ’خفیہ‘ بیوی کانام سامنے آیا۔ یشودابین کو سرکاری دستاویزات میں اپنی بیوی تسلیم کرنے کے باوجود نریندر مودی نے اس پر اپنی خاموشی آج تک نہیں توڑی ہے۔انھوں نے اب تک اس بات کی وضاحت بھی نہیں پیش کی ہے کہ آخر اب تک وہ خود کو ’بیچلر‘ کی طرح سے کیوں پیش کرتے رہے؟یشودابین کہہ چکی ہیں کہ برسوں سے ان کی جانب سے لکھے گئے خطوط کا انھیں کوئی جواب نہیں ملا ہے جبکہ خود کو شادی شدہ کہلوانے کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی نے یشودابین سے رابطہ نہیں کیا۔ ان کے درمیان 45 برسوں کی علیحدگی اور خاموشی کی دیواریں اب تک نہیں ٹوٹی ہیں۔ظاہر ہے یشودابین اسے اپنی توہین سمجھتی ہیں۔ گذشتہ دنوں میڈیا میں اچانک سے انٹرویو دینے کے پس پشت یشودابین کا مقصد جو بھی رہا ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب تک وہ اپنی خودداری کا دامن تھامے ہوئی ہیں۔اب حق اطلاعات اور معلومات کی رسائی کے قانون کے تحت یشودابین نے اپنے لئے مہیا کروائی گئی سکیورٹی پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ آخر انھیں کس قانون کے تحت یہ سکیورٹی فراہم کی گئی ہے اور اس کے تحت ان کے اور کیا حقوق ہیں؟انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ آر ٹی آئی کے خصوصی ایکٹ کے تحت ان سوالات کے جواب انھیں 48 گھنٹے کے اندر فراہم کئے جائیں۔دوسری طرف نریندر مودی کے خلاف ایک شوہر کی حیثیت سے کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔
مودی کی قربانی؟
نریندر مودی سے یشودابین کی شادی ہندو رسم و رواج کےمطابق ہوئی تھی۔ ایک ہندو بیوی ہونے کے سبب ان کے بہت سے حقوق ہیں لیکن یشودابین اپنے حق کی بھی بات نہیں کرتیں۔بی بی سی سے بات چیت کے دوران سوال پوچھنے پر انھوں نے اپنے شوہر کے گھر جانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ لیکن ان کے مطابق وہ اسی صورت میں واپس لوٹیں گی جب ان کے شوہر خود انہیں فون کریں گے۔اگر نریندر مودی اپنی بیوی کو اس کی عزت اور احترام کریں گے تبھی وہ وہاں جائیں گی۔وزیر اعظم کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ ملک کی خدمت میںمصروف ہیں اور اپنی بیوی کو الگ رکھنا دراصل ان کی ایک بڑی قربانی ہے۔اس معاملہ پر ان کے حامیوں کے درمیان بھلے ہی ان کی مقبولیت کم نہیں ہوگی لیکن یشودابین کے سوالات کے بعد ان کے شوہرکے کردار پر ضرور سوال اٹھ رہے ہیں۔اپنی درخواست میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے محافظوں سے ڈر لگتا ہے۔ریٹائرڈ اسکول ٹیچر یشودا بین گجرات کے یشورواڑا گاو ¿ں میں اپنے بھائی کیساتھ رہتی ہیں۔عوام کو آج بھی یاد ہے کہ بی جے پی کی انتخابی ریاستوں میں جا کرمودی عوام کو یاد دلاتے رہے ہیں کہ کس طرح کانگریس نے 100 دنوں میں مہنگائی کم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب مہنگائی پر بات بھی نہیں کرتی جوواقعی درست بھی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے 45 سال پہلے مودی نے بھی اپنی شریک حیات سے کچھ اسی قسم کے وعدے کئے تھے ، اگنی کو ساکشی مان کر7 عہد کئے تھے۔ کیا ان میں سے ایک بھی وعدہ نبھایا گیا ؟
زبردستی کی شادی؟
 مودی کی شادی کی خبریںبرسوں سے آ رہی ہیں۔ انگریزی میگزین نے یشودابےن کی نہ صرف تصاویر سمیت رپورٹ شائع کی بلکہ یو ٹیوب پر ان کا ویڈیو
http://www.youtube.com/watch?v=tHtbnK3i_Dkپر اور
http://www.youtube.com/watch?v=H-hJXeHYWfkپر بھی دیکھے گئے۔یہ کلپس بھی اس امر کا شاہد ہیں کہ میں نریندر دامودرداس مودی کی دھرم پتنی ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ مودی یا بی جے پی نے کبھی اس مسئلہ پر کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ شاید ان کے پاس کہنے کو کچھ ہے بھی نہیں۔لیکن آگرہ سے شائع ایک ہندی روزنامہ نے ایک نجی تقریب میںشرکت کرنے والے سبرامنیم سوامی کے حوالہ سے یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ مودی واقعی شادی شدہ ہیں لیکن چونکہ ان کی شادی زبردستی ہو گئی تھی، اس لئے وہ ان کیساتھ نہیں رہتے۔ مودی کی ازدواجی زندگی پر مخالفین برسوں سے سوالیہ نشان قائم کرتے رہے ہیں لیکن مودی کے کسی حامی کی طرف سے اس کی تصدیق کا یہ پہلا موقع تھا۔ اس لئے میڈیا نے اس خبر کو ہاتھوں ہاتھ لپک لیا۔ لیکن جب بات آگ کی طرح پھیلنے لگی کہ سوامی نے مودی کی شادی کی تصدیق کی ہے تو مالک نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے اس کا انکار کیا۔واضح ہے، منہ پھٹ سوامی نے آف دی ریکارڈ کچھ کہا ہو گا اور وہاں موجود صحافی نے اس کی خبر بنا دی ہوگی۔جب یہ منظر عام پر آئی تو انھیں انکار کرنا پڑا۔
7پھیرے،7وعدے:
جب سوامی سے ٹوئٹر پر پوچھا گیاکہ آپ تو دشمنوں کی خفیہ معلومات جمع کرنے میں ماہر ہیں لیکن کیا اپنے دوست نریندر مودی کے بارے میں یہ بتانے کی تکلیف کریں گے کہ وہ شادی شدہ ہیں یا نہیں؟ مودی نے اپنی بیوی کو کیوں چھوڑ ا ،کیا اس لئے کہ وہ رام بھگت ہیں اور رام نے بھی سیتا کو چھوڑا تھا۔ لیکن اپنے دوست مودی کی طرح سوامی بھی خاموش رہے ۔ خاموشی سے حقیقت نہیں چھپتی جبکہ خاموشی اقرار کا اظہار ہوتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 18 سالہ لڑکی نے ایسا کیا قصور کیا تھا کہ اسے محض تین سال بعد ہی ’بن باس‘ مل گیا۔ اگنی کے گرد 7 پھیرے لیتے ہوئے مودی نے کبھی اس سے 7 وعدہ کئے تھے‘ وہ کیا ہیں؟ان سات وچنوں میں پہلا یہ وچن یہ ہے کہ یشودابےن نے مودی سے وعدہ لیا ہو گاکہ اگر آپ کبھی تیرتھ یاتراکو جاوں تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے جانا۔ کوئی ورت اپواس یا دیگر دھرمک کاریہ آپ کریں تو آج کی طرح مجھے اپنے بائیں حصہ میں ضرور جگہ دیں۔ اگر آپ اسے قبول کرتے ہیں تو میں آپ کی زوجیت میں آنا قبول کرتی ہوں۔
سخت و دشوارزندگی:
مودی نے اس وقت’ ہاں‘ کہا ہوگا لیکن اس وقت جب وہ آر ایس ایس کے پرچارک تھے، اور آج جب وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں تو ان کی بیوی کہاں ان کے کیساتھ ہے ؟ کیا ہوا مودی کا پہلا وعدہ کہ جہاں بھی جائیں گے، ان کو ساتھ لے جائیں گے ؟یشودابےن نے اس وقت دوسرا وعدہ لیا ہوگا کہ جس طرح آپ اپنے ماں باپ کا احترام کرتے ہیں، اسی طرح میرے والدین کا بھی احترام کریں اورکنبہ کی پاسداری کے مطابق’ دھرم نشٹھان‘ کرتے ہوئے’ایشور بھگت‘بنے رہیں تو میں آپ کی زوجیت میں آنا قبول کرتی ہوں۔مودی نے اس پر بھی حامی بھری ہوگی لیکن کنبہ کی تو کیا ،انھوں نے کسی کی بھی لاج نہیں رکھی اور بیوی کو چھوڑ کر انہیں ایک تنہا زندگی جینے کی لعنت عطاکردی۔ یشودابےن نے کیسے اپنی پوری زندگی ٹین کی چھت والے ایک چھوٹے سے کمرے میں کاٹی جس میں ٹائلیٹ اور باتھ روم بھی میسر نہیں ہے، اس کے بارے میں تفصیل سے جاننے کیلئے ذرائع ابلاغ میں شائع رپورٹیںنوحہ خواں ہیں۔
 اپنا خرچہ خود کیابرداشت:
تیسرے وچن میں یشودابےن نے کہا ہوگا کہ آپ مجھے یہ وعدہ کریں کہ آپ زندگی کی تینوں صورتوںیعنی یواوستھایانوجوانی ، پروڑھاوستھایاادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں میرا ’پالن پوشن‘ کرتے رہیں گے ، تو میں آپ کی زوجیت میں آنے کو تیار ہوں۔مودی نے پھر حامی بھری ہوگی لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ ان اقوال کو انہوں نے کس حد تک نبھایاہے؟ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اپنے شوہر کی خواہش پوری کرنے کیلئے اور خود کو ان کے دوستانہ دکھانے کا یشودابےن جو شادی کے وقت محض ساتویںکلاس پاس تھیں واپس اپنے میکہ آ گئیں اور وہاں دسویں کی پڑھائی پوری کی لیکن نریندر بھائی نے اس وقت بھی ان کو نہیں اپنایا حالانکہ اس سے ان کو یہ فائدہ ہوا کہ وہ آگے جاکر ٹیچر بن پائیں اور اپنا خرچہ خود برداشت کرسکیں۔یشودابےن نے شادی ویدی پر چوتھا وعدہ یہ لیا ہوگا کہ اب تک آپ کے گھر ‘ خاندان کی فکر سے مکمل طور آزاد تھے‘ لیکن اب جبکہ آپ نے شادی بندھن میں بندھنے جا رہے ہیں تو مستقبل میں خاندان کی تمام ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے۔ اگر آپ کو اس بوجھ کو برداشت کرنے کی عہد کریں تو ہی میں آپ زوجیت میں آ سکتی ہوں۔مودی نے یہ وعدہ بھی کیا ہو گا لیکن کیا انہوں نے ان کا خیال رکھا ؟ جیسا کہ’ اوپن ‘میگزین کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ یشودابےن اسکول میں پڑھاکر اپنی گزر بسر کرتی رہیں جبکہ مودی نے کبھی مڑ کر دیکھا بھی نہیں کہ وہ جیتی ہیں یا مرتی ہیں۔
کہاں گئی بیوی کی منشا؟
پانچواں وعدہ یشودابےن نے یہ لیاہو گاکہ آپ کے گھر کے کاموں میںشادی سے متعلق لین دین یا دیگر کسی کیلئے خرچ کرتے وقت اگر آپ کو میری منشا بھی حاصل کرلیا کریں تو میں آپ کی زوجیت میں آنا قبول کرتی ہوں۔یہ وعدہ بھی کیا گیا ہو گا لیکن کتنا عمل ہوا، کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔چھٹا قول بہت ہی اہم ہے۔ یشودابےن نے کہا ہوگاکہ اگر میں اپنی سکھیوں یا دیگر عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوں تو آپ وہاں سب کے سامنے کسی بھی وجہ سے میری توہین نہیں کریں گے۔ اگر آپ جوا یا دیگر کسی بھی قسم کی بدسلوکی سے اپنے آپ کو دور رکھیں تو ہی میں آپ کی زوجیت میں آنا قبول کرتی ہوں۔مودی نے اس پر بھی حامی بھری ہوگی لیکن سکھیو ںکے سامنے کیا ، انہوں نے تو ساری دنیا کے سامنے ان کی توہین کر دی۔ بدچلن بیوی کا داغ جس خاتون پر لگتا ہے ، وہی سمجھ سکتی ہے اس ذلت کے عذاب کو‘ ایک ایسی توہین جسے وہ تل تل جھےلتی رہی ہیں۔ ہر دن، ہرلمحہ ،ہرپل یہ تکلیف اس بات سے اور بڑھ جاتی ہے کہ آپ کو دنیا کے سامنے یہ کہنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے کہ آپ نریندر مودی کی بیوی ہیں کیونکہ آپ کو خدشہ لاحق ہے کہ کہیں انتظامیہ آپ کیخلاف نہ ہو جائے۔ اس رپورٹ کے مطابق یشودابےن پہلے تیار ہو گئی تھیں کہ وہ صحافی کو سب کچھ بتائیں گی لیکن ہیڈ ماسٹر کی طرف سے ٹوکنے پر وہ بعد میں پلٹ گئیں۔ انہوں نے کہاکہ’میں اپنے شوہر کے خلاف کچھ نہیںکہوںگی‘ وہ بہت طاقتوراوربااثر ہیں۔ ایک یہی کام ہے جس کے بھروسے میری روزی روٹی چل رہی ہے۔ میں نے کچھ کہہ دیا تو میرا جینا حرام ہو جائے گا۔‘
پچھتاواکیوں نہیں؟
اب ساتواں اور آخری وعدہ یاد دلائیں ؟ ساتویں قول کے طور پر یشودابےن نے یہ کہا ہوگاکہ آپ پرائی عورتوں کو ماں کی طرح سمجھیں گے اورمیاںبیوی کی آپسی محبت کے درمیان دیگر کسی کو شریک نہیں بنائیں گے۔ اگر آپ یہ قول مجھے دیں تو ہی میں آپ کی زوجیت میں آنا قبول کرتی ہوں۔مودی نے یہ آخری وعدہ بھی کیا ہو گا اور اسے اس طرح نبھایا کہ شادی کے کچھ ہی دنوں بعد انھیں چھوڑ دیا۔اتنے برسوں سے تنہا اور چھوڑ دیا زندگی جینے والی یشودابےن کی کیا حالت ہو گئی ہے ، یہ جاننے کیلئے یوٹیوب پر موجود ویڈیوکو دیکھاجاسکتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی کوآج بھی اپنے کرتوتوں پر پچھتاواکیوں نہیں ہوتا ؟ وہ بیچاری آج بھی انہی کا نام کیوں جپتی ہیں اور یہ ہیں کہ’ دش ینت‘ کی طرح انہیں بھلا بیٹھے ہیں اوریہ بھی فراموش کرچکے ہیںکہ انھوں نے شادی کے7 پھیروں کے دوران7 وعدے کئے تھے جو ایفاکے منتظر ہیں!عجیب بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 ستمبر کو یوم اساتذہ کے موقع پر اساتذہ اور طلبا کے والدین کو اپنے بچوں کا کردار بہترکرنے کا مشورہ دیا تھا۔طالب علموں کے کردار کی تعمیر کے حوالہ سے انھوں نے کافی دیر تک تقریر کی تھی۔اگر وائف ڈے یعنی ’یوم شریک حیات‘ جیسا کوئی دن ہوتا تو اس موقع پر وزیر اعظم کیا مشورہ دیتے؟ اور اگر کوئی مشورہ دیتے تو ان کی بیوی یشودابین کا ردعمل کیا ہوتا؟یہ تمام سوالات تصوراتی ضرور ہیں لیکن ان سے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی الجھنیں کافی حد تک بڑھ سکتی ہیںلیکن کیا کسی میں ان کی ذاتی زندگی سے متعلق اس سوال کوپوچھنے کی ہمت ہے کہ ’مودی جی کیا آپ کامیاب شوہر بھی ہیں؟‘

No More A Walkover

By: Sajjad Ahmed
In a country where even Lord Rama’s Maryada Purshottam status has been subjected to scrutiny for his decision to cast his wife into wilderness and then insist on an agni pariksha, it is surprising how easily we let the debate on Jashodaben fade away into insignificance. According to reports, Nov 25, 2014, it has been almost six months since her husband became the Prime Minister. But apart from the fleeting interest in her when Narendra Modi finally accepted his marital status while filing his nomination papers, we let Jashodaben disappear from our discourse.
That is partly because of the unwritten covenant that makes us squeamish while discussing the private lives of our powerful politicians. But a part of our reluctance (some may call it indifference) is also because Jashodaben had preferred complete silence over her life and was reluctant to bring it under the public spotlight.
Though it is tempting to explore the lives of politician’s who aspire to positions of great power and responsibility in great detail, somehow it did not seem right to pry into the life of a simple woman who appeared to have already gone through a lot of trauma and pain. Jashodaben always appeared to be worthy of sympathy and respect than of becoming the subject of a political controversy.
But her decision to come out in the open and draw attention to her plight changes all that. Her desperate but brave act shows Jashodaben doesn’t just need our silent sympathy; she also needs of our vocal support in the fight for her rights.
For, whatever be our PM’s compulsions, this is not the life that Jashodaben deserves. Her husband may or may not be blamed for it -- you can perhaps blame her stars -- but her current plight is certainly not Jashodaben’s fault. This is not the result of her karma.
A few days ago, Jashodaben had, after years of dignified silence, told a TV channel she was willing to live with her husband if he is ready too. On Monday, her brother Ashok Modi made a poignant statement: “Je prem emne malvu joiye, e nathi maltu (she is not getting the love she deserves). Knowing the PM and the troubled history of his marital life, it would be too much to expect him to bestow on his wife the kind of status others in her position have enjoyed.
But, is it too much to let her live in dignity? Is it right, as she pointed out, to let her travel in public transport even as the SPG guards who tail her use government vehicles? Would heavens fall on us if she gets some of the facilities that a PM’s wife is entitled to? Will we, as a nation, start jumping up and down if Jashodaben gets a decent house and is spared the humiliation of moving around on a two-wheeler?
It would be wrong to not see this from the PM’s point of view. Having built the image of a selfless servant of the country, India’s pradhan sevak who doesn’t get distracted by family and friends, Modi may not be willing to favour his wife, or for that matter even his mother.
But India is a country of great depth. It respects qualities like steely resolve and unwavering dedication to one’s professed principles. But this country equally reveres those who give the highest importance to justice. Now that Jashodaben has raised her voice for her rights, it would be a blot on Modi’s image if she is ignored. We need to ask ourselves just one question: What would have been Modi’s response if an ordinary housewife had approached him to seek her basic rights?

0 comments:

Post a Comment

Visitors

Flag Counter