Tuesday, August 23, 2016

Why Women'sCommission Chief Slammed? یہ دھندہ ہے تو گندا کیوں ہے ؟


سجاد احمد
خواتین کیخلاف تشددکی بیخ کنی کی آڑ میں انسانی معاشرہ کو بے حیائی اور اخلاق سوز بنانے کی حالیہ مذموم کاوشوں کی قلعی کھلنے لگی ہے۔ ’لیو ان‘،ہم جنس پرستی کے حق میں قانون سازی کے بعد اب جسم فروشی کو منظور ی دینے کی تیاری ہے۔ان دنوں ملک میںجسم فروشی کو قانونی درجہ دئے جانے پرذرائع ابلاغ میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ 2009 کے دوران ہی سپریم کورٹ نے بچوں کی ا سمکلنگ سے متعلق ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل گوپال شپرمانیم سے پوچھا کہ اس کاروبار کو قانونی حیثیت نہ دینے کی وجہ کیا ہے؟ ہفتہ کو خواتین کمیشن سپریم کورٹ کی طرف سے قائم ایک پینل کے سامنے اپنی سفارش پیش کی ہے جبکہ متعدد خواتین تنظیمیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ اعداد و شمارشاہد ہیں کہ ہندوستان میں تقریبا تیس لاکھ لوگ جسم فروشی سے وابستہ ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کتنے اپنی مرضی سے اس پیشہ میں آئے اور کتنوں کو زبردستی یہاں لایا گیا، اس سلسلہ میںحقائق میسر نہیں ہیں۔
 اقوام متحدہ کی کارستانی:
سونے پر سہاگہ رواں برس اپریل کے دوران اقوام متحدہ نے خواتین کیخلاف جاری تشدد پرہوشربا رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا کہ اگر جسم فروشی کو جرم کے زمرہ سے نکال دیا جائے، تو ہندوستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے معاملات میں کمی آ سکتی ہے۔ پانچ سال قبل سپریم کورٹ نے بھی جسم فروشی کو قانونی درجہ دینے کی بات کہی تھی۔ اب خواتین کمیشن نے عدالت کے سامنے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔یہ وہ طبقہ ہے جودن کے اجالے میں’عزت دار‘ سماج ان بدنام گلیوں سے دور رہتا ہے۔ یہاں رہنے والی لڑکیوں کو گالیوں سے نوازتاہے لیکن سماج کے بہت سے لوگ یہاں اپنی راتیں رنگین کرنے سے گریز نہیں کرتا، جبکہ یہاں کام کرنےوالی زیادہ تر سیکس ورکرز ان رنگینیوںسے کوسوں دور ہیں۔ کیا اس’گندے دھندے‘ کو قانونی جامہ پہنانے سے ان تاریک گلیوں میں روشنی کی کرنیں آ پائیں گی یا پھر یہ ہمارے معاشرے اور سوچ کیلئے مہلک قدم ہوگا؟ جسم فروشی کے کاروبار کو قانونی رضامندی دیئے جانے پر بحث جاری ہے۔ اس کی مخالفت اورحق میںبات کرنے والوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ 
دو گروپوں میںمنقسم:
بہت سے ماہرین کاماننا ہے کہ دنیا کے اس شرمناک ترین’دھندے‘کو ختم کرنا قریب قریب ناممکن ہے تو اسے قانونی رضامندی کیوں نہ دے دی جائے تاکہ ان گندی گلیوں میں رہنے والی سینکڑوں لڑکیوں کو انسانی حق ملنے کی راہ مضبوط ہولیکن دوسری طرف یہ کہنے والے بھی کم نہیں ہیں کہ ہم کسی جرم کو ختم نہیں کر پا رہے، اس لئے اسے صحیح مانتے ہوئے قانونی رضامندی دینا بالکل غلط ہے۔ موقع بموقع پر سر اٹھانےوالی اس بحث کو تازہ کیا ہے نیشنل ومن کمیشن کی صدر للتا کمارمنگلم کے ایک بیان نے، جس میں انہوں نے کہا کہ جسم فروشی کے کاروبار کو قانونی جامہ پہنانے سے خواتین کی خریدوفروخت پر پابندی لگے گی اور ایڈز جیسی بیماریاں بھی کم ہوں گی۔ کمارمنگلم نے یہ بات کہی، کرناٹک کی سب سے بڑی کمیونٹی لنگیات کی اکلوتی خاتون جگت گرو مےتھے مہادےوی کے بیان کے بعد۔ مہادےوی نے کہا تھا کہ جب تک جنسی ورک کو قانونی سرپرستی عطا نہیں کی جائے گی، عصمت دری کے سانحات نہیں رکیںگے۔ اسی کے بعد للتا کمارمنگلم نے تجویز پیش کرنے کی بات کہی۔ بہرحال اس موضوع پر لوگ دو گروپوں میںمنقسم ہوچکے ہیں۔
لیبر قوانین کیخلاف ورزی:
 سینٹر فار سوشل ریسرچ کی ڈائریکٹر رنجنا کماری کا خیال ہے کہ قانونی حیثیت دینا بین الاقوامی لیبر قوانین کی خلاف ورزی ہو گاجبکہ بین الاقوامی لیبر کی تنظیم عرف آئی ایل او کے مطابق جو بھی کام کی تیراکی ہو اور جو مجبور ہو کر نہ کیا جائے، وہ درست ہے۔ جسم فروشی ان دونوں میں سے کسی بھی زمرہ میںشامل نہیں ہوتی۔ ہم پہلے ہی سینکڑوں شعبوں میں لیبر قوانین کو ٹھیک طرح نافذ نہیں کرسکے ہیں اور اب ہم جسم فروشی کی بات کر رہے ہیں۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا اب جسم فروشی سے ہونے والی کمائی کو مغربی ممالک کی طرز پر ملک کی اقتصادی صلاحیت میں شامل کیا جائے گا؟
اب جسم فروشی پرٹیکس؟
یہ کوئی ہوائی فائرنگ نہیں ہے بلکہ جرمن شہر ڈورٹمنڈ نے اپنے بجٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے ایک ٹیکس متعارف کروایا ہے۔ اس کے تحت جسم فروش خواتین کو اپنی روزانہ کی آمدنی سے رقم ادا کرنا ہو گی۔اس نئے ٹیکس کے مطابق ڈورٹمنڈ میں جسم فروش خواتین کو روزانہ کی بنیادوں پر چھ یوروکاایک ٹکٹ خریدنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو ان کیخلاف معقول جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق Pleasure Tax نامی اس منصوبے کے تحت سالانہ بنیادوں پر 750,000 یوروکا ٹیکس حاصل ہو سکے گا۔بالکل اسی ھرح جیسے ہندوستان میں فلم بینوںسے تفریحی ٹیکس Entertainment tax یا مہ نوشوں سے ایکسائز وصول کیا جاتا ہے۔مغربی جرمن شہر ڈورٹمنڈ نے بھی اس وقت ایک سو ملین یورو کے بجٹ خسارے کوکم کرنے کیلئے یہی ترکیب نکالی جبکہ مقامی انتظامیہ نے بھی’لطف اٹھانے کے ٹیکس‘ کوبھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی قرار دیا گیا ۔
جسم فروشی کے اڈے:
بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی جسم فروش اگر ایک دن کیلئے کام کرنا چاہتا یا چاہتی ہے تو اسے چھ یوروکی ایک خصوصی ٹکٹ یا پرچی حاصل کرنا ہوگی۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق یہ پرچی صرف ایک دن کیلئے ہی کار آمد ہوگی جبکہ دوسرے دن جسم فروشوں کو ایک نئی پرچی خریدنا پڑے گی۔ڈورٹمنڈ کے سرکاری ترجمان میشائیل مائنڈرز نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ جرمنی کے دیگر شہروں کی طرح ڈورٹمنڈ کو بھی مالی مشکلات کا سامنا ہے تو انہوں نے سیکس پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالہ سے کئی تجاویز پر غورکیا لیکن یہ منصوبہ’ سب سے بہتر‘ اور’کارآمد‘ معلوم ہوا۔ اس تجویز پر بھی غورکیا گیا تو پتہ چلا کہ اگر کوئی شخص ڈورٹمنڈ کے ریڈ لائٹ ایریا میں داخل ہونا چاہے تواس پر ایک یا دو یوروکا ٹیکس لگایا جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انتظامیہ کو یہ منصوبہ کچھ’ مناسب‘ محسوس نہیں ہوا۔
بے لگام امریکی معاشرت:
جرمنی کے علاوہ دیگر مغربی ممالک کی حالت بھی اچھی نہیں ہے جبکہ امریکی سپریم کورٹ نے پانچ وفاقی ریاستوں کی ہم جنس پرست افراد کی آپس میں شادیوں پر پابندی لگوانے کیلئے دائر کردہ اپیلیں مسترد کر دسں۔ اس طرح 30 امریکی ریاستوں میں ہم جنس پرستوں کو آپس میں’ قانونی شادیوں‘ کی اجازت حاصل ہے۔ امریکی سپریم کورٹ نےرواں برس کے گذشتہ مہینہ 6 اکتوبرپیر کے روز بغیر کوئی بھی تبصرہ کیے ہم جنس پرست مردوں اور خواتین کی آپس میں قانونی شادیوں کو ممنوع قرار دینے کی جن پانچ ریاستوں کی اپیلوں کو مسترد کر دیا، وہ انڈیانا، اوکلاہوما، ی ±وٹاہ، ورجینیا اور وِسکونسن کی طرف سے دائر کی گئی تھیں۔امریکی سپریم کورٹ کی طرف سے ایسی شادیوں پر پابندی لگانے کی پانچ اپیلوں کے مسترد کیے جانے کے بعد اب اس طرح کی کوئی بھی دوسری اپیل ملک کی اس اعلیٰ ترین عدالت میں زیر سماعت نہیں ہے، جو کسی وفاقی ریاست کی حکومت یا اس کے نمائندہ کسی ادارے نے دائر کی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں آپس میں قانونی طور پر شادیاں کرنے کے خواہش مند ہم جنس پرست مردوں اور خواتین کیلئے ان کے ارادوں کی تکمیل مقابلتا? مزید آسان ہو گئی ہے۔
 قانونی تحفظ حاصل:
 سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلہ کے بعد اب امریکہ کی مجموعی طور پر 30 ریاستوں اور ملکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایک ہی جنس کے افراد کی آپس میں ’باقاعدہ شادیوں ‘کو قانونی تحفظ حاصل ہو گیا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کے ججوں نے آج پانچ ریاستوں کی قانونی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اس بارے میں کوئی ایسا جامع فیصلہ نہیں کیا، جس کی مدد سے پورے امریکہ میں ہم جنس پرست افراد کی آپس میں باقاعدہ شادیوں سے متعلق متنازعہ موضوع ایک ہی بار حل ہو جائے۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد پانچ ریاستوں میں ہم جنس پرست افراد کی آپس میں قانونی شادیوں کے سلسلے میں ہر قسم کا التواءدور ہو گیا جبکہ ساتھ ہی ایک دوسرے مختصر فیصلے میں عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ چھ دیگر امریکی ریاستوں میں بھی ہم جنس پرست افراد جلد ہی آپس میں’ قانونی طور پر شادیاں‘ کر سکیں گے۔ ان ریاستوں میں کولوراڈو، کینساس، شمالی کیرولائنا، جنوبی کیرولائنا، ویسٹ ورجینیا اور وائیومنگ شامل ہیں۔امریکی سپریم کورٹ کے نو میں سے اگر صرف چار جج بھی حمایت کر دیں تو یہ عدالت کسی بھی مقدمے کی سماعت کر سکتی ہے لیکن کسی بھی مقدمے میں فیصلے کیلئے ججوں کی اکثریتی رائے یعنی نو میں سے کم از کم پانچ ججوں کی طرف سے تائید درکار ہوتی ہے۔
 جسم فروشی کو قانونی درجہ:
اسی کانتیجہ ہے کہ آج جرمنی میں اس قسم کے ٹیکس عجوبہ نہیں ہیں۔ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی کمائی کا یہ سلسلہ شروع ہوجائے جبکہ جرمنی میں جسم فروش رجسٹرڈ ہیں اور انہیں ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔ 2004 کے دوران جرمن شہر کولون میں بھی ایک ایسا ہی ٹیکس متعارف کروایا گیا تھا، جس کے تحت وہاں جسم فروش 150 یورو کا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ بعد ازاں کولون میں’پارٹ ٹائم‘جسم فروشوں کیلئے خصوصی رعایتی پیکیج سامنے لایا گیا، جس کے تحت جزوقتی لیکن رجسٹرڈ جسم فروش چھ یورو کے خصوصی ٹکٹ خریدتی ہیںجبکہ پورےجرمنی میں 2002کے دوران جسم فروشی کو قانونی درجہ دیا گیا تھا۔ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت جرمنی میں قریب چار لاکھ جسم فروش رجسٹررڈ ہیں۔
٭ آل انڈیا نیٹ ورک آف سیکس ورکرز کی صدربھارتی ڈے کا کہنا ہے کہ جسم فروشی سے وابستہ خواتین کے پاس بھی دوسرے لوگوں کی طرح حقوق ہونے چاہئیں۔
٭ غیر سرکاری تنظیم ’شکتی واہنی ‘کے بانی روی کانت نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔
حق میں ہیں یہ دلیلیں:
- اس سے جنسی ورکر کے طور پر کام کرنے والی لڑکیوں کا استحصال کم ہوگا۔ اب دلال سے لے کر گاہک، پولیس والے، ڈاکٹر تک ان کا استحصال کرتے ہیں۔ اس دھندے کے قانونی نہ ہونے کی وجہ سے وہ آواز بلندنہیںکر پاتیں۔
- قانونی جامہ پہننے کے بعد اس دھندے سے دلال اور چکلاگھر مالکان کا دخل آہستہ آہستہ کم ہو گا۔ اب کمائی کا زیادہ تر حصہ ان لوگوں کے پاس جاتا ہے اور جنسی ورکر خالی ہاتھ رہ جاتی ہیںلیکن آئندہ اپنی کمائی پر انھیںخود حق حاصل ہو گا۔
- زبردستی دھندے میں دھکےلی جانےوالی معمولی لڑکیوں کو راحت ملے گی کیونکہ اس وقت اپنی مرضی سے اس دھندے میں آنےوالی بالغ لڑکیوںکی تعداد زیادہ ہوگی۔
- ایڈز اور ایچ آئی وی جیسی بیماریوں کا خطرہ کم ہوگا۔ جنسی ورکر پروٹیکشن کیلئے کسٹمر کو مجبور کر سکیں گی۔ دھندہ کرنے کا سرٹیفکیٹ بھی شاید انہی ورکرز کو ملے گا، جنہیںتندرست اور صحت مند پایا جائے گا۔
- اس سے آبروریزی جیسے کرائم کم ہوں گے۔ مثلا، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ممبئی میں کافی رےڈلاٹ ایریا ہیں، اس لئے وہاں آبروریزی کم ہوتی ہیں۔ اسی طرح، 1959 میں آسٹریلیا کے کوئنس لینڈ میں جب کوٹھے بند کر دیے گئے تھے تو آبروریزی کے معاملات میں تقریبا 150 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا تھا۔
- سیکس ورکر کو سرکاری سہولیات مل پائیں گی۔ راشن کارڈ، بینک اکاو ¿نٹ، میڈیکل چیک اپ جیسی بنیادی سہولیات کے علاوہ ان کے بچوں کو بہتر تعلیم اور زندگی مل پائے گی۔
مخالفین کی دلیلیں:
اس کے برعکس کئی خواتین تنظیموں کا خیال ہے کہ جسم فروشی کو قانونی درجہ دئے جانے سے دیگر پریشانیاں کھڑی ہو سکتی ہیں۔
- سماجی تانے بانے کو نقصان ہو گا۔ ہم غیر ممالک کی اندھی نقل نقل نہیں کر سکتے۔ وہاں کی سوچ اور طرز زندگی ہم سے بالکل مختلف ہے۔
- سیکس ورک کو اگر انڈسٹری کا نام مل جائے گا تو عورتوں کی ڈیمانڈ بڑھے گی۔ اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کیلئے زبردستی لڑکیوں کو اس میںد ھکیلا جائے گا۔
- قانونی طورپر تسلیم کرنے کی صورت میں لڑکیوں کو اس قبیح فعل روکنا مشکل ہوجائے گا۔بھلا حکومت نے جس فعل کی منظوری دے دی ہو، اس کام کو غلط کیسے ثابت کر پائیں گے؟
- جن جگہوں پر اسے تسلیم کیا گیا ہے، وہاں خواتین کے جسم کو ایک کموڈٹی یعنی صارفین اشیاءمیں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس سے خواتین کے وقار کو نقصان پہنچے گا۔
- تسلیم کئے جانے کے بعدبھی سارا کنٹرول اور پیسہ دلالوں اور کوٹھا مالکان کے حصے آئے گا۔ سیکس ورکرز کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔کسی کو شک ہو تو وہ بازار کی دیگر صارف اشیاءکا حال دیکھ لے۔
کیا کہتا ہے موجودہ قانون؟
- اگر ایک بالغ شخص اپنی مرضی سے ’سیکس سروس‘فراہم کرتا ہے تو جرم نہیں ہے لیکن کوٹھے چلانا یا دلال کا کام کرنا یا جسم فروشی کے ذریعہ پیسہ کمانا غیر قانونی ہے۔
- 366 اے اور 366 بی کے مطابق نابالغ لڑکیوں اور دوسرے ممالک کی لڑکیوں کو جنسی کیلئے لاناجرم ہے۔ اسی طرح جسم فروشی کیلئے لڑکیوں کو بیچنا یا خریدنا جرم ہے۔
- کسی پبلک پلیس کو جنسی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے پر کسٹمر اور جنسی ورکر، دونوں مجرم ثابت ہو سکتے ہیں اور ان کو سزا ہو سکتی ہے۔
دردناک ہیں اعداد و شمار:
ہندوستان میںتقریبا30 لاکھ سیکس ورکر، 1100 ریڈ لائٹ ایریا اور 3 لاکھ کوٹھے ہیں ۔
 کیا کہنا ہے ان کا؟
٭بھارتیہ پتتا اددار سبھا کے صدرخیراتی لال بھولا کا کہنا ہے کہ سیکس ورکرز کو اپنی کمائی میں سے بمشکل 20-25 فیصد رقم مل پاتی ہے۔ یہ لڑکیاںکوٹھےوالوں کی بندھوا مزدور جیسی حیثیت میں جیتی ہیں،ان کی زندگی بے حد پست ہوتی ہے۔ اگر لائسنس مل جائے گا تو ان کی پوری کمائی پر انہی کا حق ہو گا۔ پھر اپنے بچوں کو اچھی طرح پڑھا لکھا سکیں گی اور وہ یہاں سے باہر نکل سکیں گی۔ تقسیم وطن سے قبل بھی کوٹھےوالیوں کورقص اور ناچنے گانے کا لائسنس ملتا تھاجبکہ پولیس والے ان دنوں انہیں پریشان نہیں کرتے تھے لیکن آزاد ذرائع نے بیشمار مرتبہ انکشاف کیا ہے کہ وردی والے ریڈلائٹ علاقوں میں تعیناتی کیلئے معقول رشوت تک اداکرنے کوتیار رہتے ہیں۔اب تو ہر کوئی ان بیچاریوں کو نشانہ بناتا ہے۔ پھر عام طور پر 40 سال کے بعد یہ دھندے کے قابل نہیں رہتیں۔ اچھی کمائی ہوگی تو آنےوالی زندگی بھی آرام سے گزار سکیں گی اور اپنے بچوں کو اچھی پرورش میسر کروا سکیں گی۔
٭معروف قلمکار مےترے پشپاکا کہنا ہے کہ سیکس ورکرز کو لائسنس دینے کی بات فضول ہے۔ مجھے بتائیں، کیا لائسنس سے ان لڑکیوں کو معاشرے میں احترام ملے گا؟ کیا ہمارا معاشرہ انہیں قبول کر لے گا؟ لائسنس دینا ہی ہے تو ان مردوں کو دیں، جو ان کے پاس آتے ہیں تاکہ ان کے چہرے بے نقاب ہو سکیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ پہلے مردوں کی عیاشی کیلئے منڈیاں کھول دو۔ پھر انہیں قانونی رضامندی بھی عطا کر دو۔ اس سے تو جسم فروشی کے کاروبار کو فروغ ہی نصیب ہو گا۔ ابھی جو سیکس ورکر اپنے بچوں کو اس دھندے سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، پھر کہے گی کہ آخر اس میں برائی ہی کیا ہے؟ اس معاملے میں بیرونی ممالک کی نقالی درست نہیں ہے جبکہ وہاں کی سوسائٹی میں بہت وسیع قلبی اور کشادگی ہے نیز وہاں سب کو مساوی درجہ حاصل ہے۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔ حکومت ان کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہے تو روزگار کے انتظام کرے۔
٭سماجی علوم کے ماہر امتیاز احمدکا کہنا ہے کہ سماج تیزی سے بدل رہا ہے اور بڑی حد تک بے قیمت ہو رہا ہے۔ ایسے میں بہت سی چیزوں میں تبدیلی ہو رہی ہیں اور ہوں گی۔ ہمیں اسے قبول کرنا چاہئے۔ ہمارے قانون پرانے وقت کے حساب سے بنے ہیں۔ ان میں سے بہتوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔سیکس ورکرز کو بھی لائسنس دینے کی بات کو آج کے وقت کی ضرورت سمجھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ہمارا سماج اسے آسانی سے قبول نہیں کرے گا۔ لیکن ایسا ہوگا تو بروکر اور کوٹھےوالوں کا دباو کم ہوگا۔انسانی اسمگلنگ پر کنٹرول ہوگا۔ آرگنائزڈ شعبہ ہونے کے سبب جنسی ورکرز کو قانونی حقوق ملیں گے۔ پرانی قدروں کے لحاظ سے تو یہ قطعی طور پر غلط ہے لیکن بدلتی ہوئی وےلیوز میں آج جب ہر چیز کمرشلائزڈ ہو گئی ہے تو خواتین کو خود کو بارگےن کرنے کے حق سے محروم کیوں رکھا جائے؟
٭سیکس ورکرنسرین کہتی ہیں کہ لائسنس ملے گا تو زبردستی اس دھندے میں لائی جانےوالی لڑکیوں کی بڑی تعداد محفوظ رہے گی۔ ہمیں بھی ہر کوئی بغیر وجہ پریشان نہیں کرے گا۔ اب تو دلال، وکیل، پولیس والوں سے لے کر ڈاکٹر تک نہیں چھوڑتے۔ کوئی بیماری ہو جائے تو آلتوفالتو فیس مانگ لیتے ہیں۔ معمولی لڑکیوں کی تلاش میں باہر کی ریاستوں سے پولیس آکر سب الٹ پلٹ کر جاتی ہے۔ ہم اپنا درد کسی کو بتا نہیں سکتے۔ بچوں کو بھی اپنی شناخت چھپانی پڑتی ہے۔ پتہ چل جاتا ہے تو اسکول میں دوسرے بچے پریشان کرتے ہیں جبکہ ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر ہمارے بچے اسکول نہیں جانا چاہتے۔ قانونی حیثیت ملے گی تو اس قسم کے مسائل پیش نہیں آئیں گے۔
٭آل انڈیا پرگرےسو ومنس ایسوسی ایشن کی کویتاکرشنن کا کہنا ہے کہ خواتین کمیشن کو اپنی سفارش پیش کرنے سے قبل جسم فروش خواتین کی بہبودی کیلئے کام کرنے والے اداروں سے تبادلہ خیال کرنا چاہیے تھا۔ جسم فروشی کو قانونی درجہ دینے کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت اسے خواتین کیلئے ملازمت کی کسی ایک کا انتخاب بنا کر پیش کرے۔
عدالت کسے کرتی ہے تسلیم؟
 بہرکیف ‘اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ سیکس ٹریڈ کو تسلیم کرنے اور انڈسٹری کے طور پر ماننے کی صورت میں لڑکیوں کی ڈیمانڈ بڑھے گی۔ یہ ڈیمانڈ کہاں سے پوری ہوگی؟ ظاہر ہے، دور دراز کے غریب اور پسماندہ علاقوں کی لڑکیوں کو جبرا اس میںد ھکیلاجائے گا۔ آج بھی قریب 95 فیصد لڑکیاںاسمگل ہوکر اس شرمناک کاروبار میں پہنچتی ہیں۔ کوئی اپنی مرضی سے یہاں نہیں آنا چاہتا۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں کہہ چکا ہے کہ جنسی ورکرز کو عام عورتوں والی تمام سہولتیں ملیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دھندے کو فروغ دیا جائے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی برائی کو ختم نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اسے قانونی منظوری دی جائے؟ایسے میںنیشنل کمیشن فار ویمن کی صدر للتا کمارمنگلم کی یہ دلیل غضب ڈھاسکتی ہے کہ قانونی حیثیت حاصل ہو جانے سے نہ صرف تشدد کے معاملات میں کمی آئے گی بلکہ خواتین کی صحت پر بھی مثبت اثر پڑے گا اور ایڈز جیسی بیماریوں پر قابو پایا جا سکے گا۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ اس سے انسانی اسمگلنگ کے معاملات میں بھی کمی آئے گی۔ کمارمنگلم کے بقول جسم فروشی سے وابستہ خواتین ڈاکٹروں کے پاس جانے سے ہچکچاتی ہیںجبکہ وہ پولیس سے بھی پریشان ہوتی ہیں۔ قانونی درجہ دئے جانے اور جرم کے زمرے سے نکالے جانے پربحث جاری ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ عدالت ان دونوں میں سے کون سے اختیارات کو توجہ دیتی ہے۔
بے لگام امراءو وزراءکی پیداوار:
اسے دعوت حق کی کمزوری کہیں یا بے لگام امراءو وزراءکی پیداوارکہ جسم فروشی شعبہ انسانی زندگی کا سب سے قدیم لازوال اور متحرک شعبہ رہا ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جس سے دنیا کا کوئی حصہ خالی نہیں اور نہ ہی کوئی اس کو ختم کر سکا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر اس کو ختم کرنے کی کاوشوں کے باوجود اسے ختم کرنا مشکل و ناممکن کیوںثابت ہوا؟ کیوں دنیا کے سارے ممالک بری طرح ناکام ہیں کہ وہ اس کو ختم کر سکیں؟ اس کی معاشرے میں کسی نہ کسی صورت پر موجودگی نے بہت سارے جدید معاشروں کومجبور کر دیا ہے کہ اس کیلئے قوانین بنائیں تاکہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے جبکہ بہت سارے مذہبی ممالک اس کو ناجائز قرار دینے کے باوجود نہ صرف اس میں ملوث ہیںحالانکہ وہاں اسی طرح کے جرائم میں اضافہ بھی ہو رہا ہے جس کی وجہ اس کی حقیقت اور ماہیت سے منہ چرانا ہے۔
صارف سماج کی نحوست:
منڈی کی اس معیشت و اقتصادیات میں جہاں ہر اخلاقی قدرفروحت ہوتی ہے ہر اصول، ہر قانون فروخت ہوتاہے انصاف اور منصفوں کی بولی لگتی ہے ہر رشتہ فروخت ہوتاہے وہاں انسانی گوشت سب سے ارزاں اور بے مول بک رہا ہے۔ دیگر تمام اجناس کی طرح عورت بھی سستی بکنے والی جنس بنی ہوئی ہے۔ انگریزی میں اس کیلئے لفظ ’پروسٹیٹیوٹ‘ استعمال کیا جاتا ہے جو لاطینی زبان کا لفظ ہے اور ’پرو سٹیٹیوٹا‘ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معانی ہیں کہ اپنے آپ کو پیش کرنا یا اپنے آپ کو کسی فائدے کی خاطر بیچ دینا۔ فارسی میں ’تن فروشی ‘ اور عربی میں ’دعارة‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں اس کی تاریخ اور اس کی وجوہات پر ایک عبوری نظر ڈالنی ہو گی جبکہ قدیم بابل کے حموربی کا قانونی ، آئینی اور اخلاقی ضابطہ دنیا کا سب سے قدیم ضابطہ ہے۔ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ضوابط اسی سے ماخوذ ہیں۔ ضابطہ قوانین میں عدالت ، کھیتی باڑی ، آبپاشی ، جہاز رانی ، غلاموں کی خریدوفروخت ، آقا اور غلام کے تعلقات ، شادی بیاہ ، وراثت ، ڈاکہ ، چوری وغیرہ سے متعلق قانون کے اصول بیان کیے گئے تھے۔ انہی میں عورتوں کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے جس کیساتھ ساتھ جسم فروش عورتوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔
کہاں سے آئی یہ لعنت؟
 سمیری تہذیب کے بارے ابوا لمورخ ودوت اور تھوسی ڈائڈز نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ وہاں جسم فروشی کو پوجا پاٹھ اورعباد ت کا درجہ حاصل تھا۔اسے مقدس جسم فروشی کا نام بھی دیا گیا ۔ بابل کے بارے وہ لکھتے ہیں کہ وہاں کی تمام عورتیں اپنی زندگی میں معبد ِ افرو دیتی پر حاضر ہوتیں اور اپنا جسم کسی بھی اجنبی کو پیش کرتیں۔ اس سے ان کے رتبے میں اضافہ ہو جاتا۔ افرودیتی یونانی دیومالا میں حسن اور محبت کی دیوی جس کو وینس یا زہرہ بھی کہا جاتا ہے، ایک سیپ سے پیدا ہوئی۔ جو دیوتاو ¿ں اور آدمیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔ افرودیتی عشق و محبت ، حسن ، زرخیزی ، عشق شہوانی ، جنسی فعل، نسلی تسلسل ، تولید و تناسل ، عیش و عشرت ، اور جنسی سرمستی و سرخوشی کی دیوی تھی۔ مقدر کی دیویوں می ری نے افرودیتی کو صرف ایک ہی آسمانی فریضے کی ادائیگی کروانے کا پابند کیا تھا اوروہ فرض تھا کہ وہ لوگوں میں جنسی ملاپ کریا کرے۔ وہ دیوی دیوتاو ¿ں ، پریوں اور انسانوں میں جنسی جذبات بھڑکا دیتی حتی کی عظیم زوس تک کو فانی عورتوں کیساتھ بھی جسمانی طور پر ملوث کر ڈالتی۔
یہودی قانون کی نحوست:
کنعان میں جسم فروشی کنعان اور اس کے ارد گرد یہودی قانون کے مطابق اس کو ناجائز قرار دیا گیا تھا مگر دوسرے مذاہب جو اس وقت وہاں موجود تھے ان میں خاص علاقوں کے مذاہب جیسے۔ بحیرہ روم کا دوسرا بڑا جزیرہ اور اٹلی کے بیس علاقوں میںساردینیا بھی شامل ہے جبکہ فونیقی ثقافت کے باشندے معبد عشتروت ایک یونانی دیوی تھی جس کی مشرقی بحیرہ روم میں پوجا کی جاتی تھی۔ جہاں جسم فروش زیادہ تر مرد تھے جسم فروشی کو عبادت کے طور پر سمجھتے تھے۔ یہوداہ اور تمر بائبل میں موجود جسم فروشی کا قصہ بھی عام ہے۔ یہوداہ اور تمر کے بارے پیدائش 38 میں مکمل واقعہ پڑھا جاسکتا ہے جہاں عورتیں سڑک کے کنارے پر کھڑی ہو جاتیں اور اپنے چہرے کو چھپا لتیں جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ یہ کوئی جسم فروش ہے اور پھر معاوضہ کے طور پر ان سے بچوں کی خواہش کرتیں یا کسی اور قیمتی چیز کی طلب۔ رہب کتاب یشوع کے مطابق اریحا کے علاقہ کی ایک عورت جسم فروش تھی۔ مایہ تہذیب اس تہذیب میں آزیٹک جبکہ آزٹیک سرخ ہندی لوگ تھے جو میکسیکو میں رہتے تھے۔ آزٹیک سلطنت چودہویں سے سولہویں صدی تک چلی۔ وہ اپنے آپ کو ’میکسیکی‘ یا ’ناہوآ‘کہلاتے تھے۔ کے باشندوں نے جسم فروشی کیلئے’چیوکلیلی‘ نامی عمارتیں بنا رکھیں تھیں جن کو مذہبی اور قانونی خاصیت حاصل تھی۔ چیوکلیلی کا اپنی زبان میں مطلب ہی عورت کا گھر ہے۔ یہ عمارتیں بند کمروں کی ماند ہوتیں تھیں جس کے صحن میں خدائے ’تلاسول تﺅتل یا تلازول تﺅتل ‘ کا مجسمہ لگا ہوتا تھا۔ یہ دیوی ناپاک کو مطہر کرنے والی تھی۔ مذہبی قوانین کے مطابق اگر عورت چاہے تو وہ جسم فروشی کر سکتی تھی جس کیلئے جنسی شہوت یہی دیوی عطا کرتی تھی اور اس عمل کی صفائی بھی اسی کا کام تھا جس سے اس کام کو قانونی اور مذہبی خاصیت صاصل تھی۔

 قدیم معاشرے کی حالت:
 ایک حوالے کے مطابق انہی عمارتوں میںبرہنہ عورتیں مردوں کے سامنے رقص کرتیں جس سے شہوت میں اضافہ ہوتا اور پاکیزگی و عفت سے دوری پیدا ہوتی۔ قدیم یونانی معاشرے میں مرد و خواتین دونوں ہی جسم فروشی کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ یہ وہ پہلی تہذیب تھی جس میں اس کو باقائدہ طور پر پذیرائی ملی اور اس کیلئے ادرے اور قوانین بنائے گئے تھے۔ یہ خاص خواتین کا شعبہ تھا جو یا تو کسی ادارے کے تحت کام کرتیں یا آزادانہ طور پر جسم فروشی کرتیں تھیں۔ اس کیلئے ان کو خاص لباس پہننا ہوتا تھا ور ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا تھا۔ سولن جو کہ اتھینز کا مشہور شاعر، قانون دان تھا اس نے سب سے پہلے قحبہ خانے اور چکلے یونان میں بنائے ان کی کمائی سے اس نے ایفروڈائٹ پینڈیموس کا معبد تعمیر کروایا۔ یہ دیوی مصری تہذیب سے لی گئی تھی جو نسل کی بقاءکی دیوی تھی۔ استرابو عظیم مورخ اور جغرافیہ دان کے مطابق مذہبی جسم فروشی میں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ یونان میں ہر طرح کی جسم فروشی کو مختلف قسم کے نام دیے گئے تھے۔ مرد جسم فروشی یونان میں بہت عام تھی عموما جوان لڑکے اس کام کیلئے اتھینز کے قحبہ خانوں میں موجود ہوتے تھے جن میں زیادہ تر آمراءیہ کام سر انجام دیتے تھے۔ زیادہ تر لڑکے غلام ہوتے اور کچھ ایسے لڑکے بھی شامل تھے جو آزادنہ طور پر یہ کام سیاستدانوں کیلئے کر رہے ہوتے تھے۔
یونانیوں کی بچہ بازی:
 اغلام بازی یہ جوان مرد کا کسی نو عمر لڑکے سے تعلق تھا جس کو یونان میں بہت اہمیت حاصل تھی۔ یہ کام قدیم یونان کا اہم خاصہ تھا۔ بہت سے ماہر اس رسم کی ابتداءکو کریٹ جبکہ کریٹ بحیرہ روم میں یونان کا سب سے بڑا جزیرہ ہے‘ سے وابستہ کرتے ہیں جہاں سے نو جوان جب فوج میں بھرتی ہوتے یا مذہب ذیوس جبکہ زیوس یونانی دیومالا میں خداوں کا بادشاہ نیز سب سے طاقتور خدا تھا۔ وہ کوہ اولمپس کا حاکم اور طوفان اور آسمانی بجلی کا مالک تھا۔ اس کے الم بجلی کی کڑک، بلوط، سانڈ اور چیل ہیں' میں داخل ہوتے تو اس وقت یہ تعلقات ان نوجوان لڑکوں سے استوار کئے جاتے تھے۔ ہم جنس پرستی کی تاریخ میں اس کو بہت اہمیت حاصل ہے جس میں یہ نہ صرف ایک قسم کی جسم فروشی تھی بلکہ ہم جنس پرستی، سیاست، مذہب سب اس میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ قدیم روم روم میں جسم فروشی کو قانونی درجہ دیا گیا تھا جو عوام میں بہت عام ہو چکی تھی۔ بہت بڑے عہدوں پر موجود رومن خضرات شامل تھے۔ رومن قانون پورے طریقے سے اس کام میں اس کو لائحہ عمل میں لاتا تھا۔
گاہکوں کی خوشنودی:
عرب کے غلام اور ان کی جسم کی خریدو فروخت کا کس کو علم نہیں ہے۔ ایشیا اس علاقے میں مرد اور خواتین دونوں جسم فروش رہے ہیں۔ اوریان ایسی عورتوں کو کہا جاتا تھا جو جسم فروشی کا کام کرتیں تھیں۔ اور صرف امیر اور اعلی عہدیداروں کیلئے تھیں۔ اسی لئے اپنے گاہکوں کو خوش کرنے کی غرض سے وہ ان کو مخصوص مصوری، موسیقی، شاعری اور شراب سے تواضع کرتیں تھیں۔ اس کام کی وجہ سے بہت ساری عورتیں اپنے وقت کی مشہور ہستیاں بن گئی تھیں۔ ان کے ذریعہ اپنائے جانے والے فیشن امیر عورتوں کا رواج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے لیکن اب ان اوریان کی جاپان اور چین میں کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ہندوستان کی تاریخ شاہدہے کہ مغلیہ دور میں جسم فروش عورتوں کو طوائف کا نام دیا جاتاتھا لیکن انگریزوں نے کلکتہ میں داخلہ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی بدولت سوناگاچھی منڈی قائم کردی۔ لاہور کا موجودہ بازار حسن عرف ہیرا منڈی فرنگی دورمیں قائم ہوا۔
سکھوں کا دور حکومت:
 اس بازار میں شاہی دربار ، وزاراءاور امرا کی محفلوں میں لوک گیت گانے اور روایتی رقص پیش کرنے والی طوائفیں اور ان کے سازندے رہا کرتے تھے یہاں بسنے والے یہ خاندان ’بڑے مہذب‘ اور’ با اخلاق ہوتے ‘تھے اور ان کے پاس شہر کے رئیس اپنی اولادوں کو تعلیم و تربیت کیلئے بھیجا کرتے تھے جبکہ جسم فروش عورتیں لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع موجودہ لنڈے بازار میں رہا کرتی تھیں یہ بازار سکھوں کے دور حکومت تک قائم رہا۔ سکھاشاہی کے دوران اس بازار میں بیٹھی چندخواتین کی وجہ سے جب ہندو مسلم فسادات ہوئے تو کشمیر کے مسلمان راجہ نے لنڈا بازار کی تمام عمارتیں خرید لیں اور یہاں سے تمام افراد کو نکال دیا گیاچنانچہ یہاں پر آباد خاندان پرانی انارکلی کے علاقے میں منتقل ہو گئے مگر انگریز دور حکومت میں یہاں قائم ہونے والی فوجی بیرکوں کی وجہ سے حکومت نے ان سے یہ علاقہ بھی خالی کروا لیا جس پر یہاں سے متعدد خاندان ہیرامنڈی میں منتقل ہو گئے۔
برصغیرہند،پاک میں فروغ:
 اس طرح ہیرامنڈای میں بھی جسم فروشی کے اڈے قائم ہو گئے یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا مگرجب جنرل ضیا ءالحق کے دور میں بازار حسن کو بند کر دیا گیا اور یہاں پر کسی بھی قسم کی پرفارمنس ممنوع قرار دے دی گئی تو یہاں کے رہنے والے خاندان شہر کے مختلف علاقوں میں منتقل ہو گئے اور یوں ایک مخصوص علاقے میں قائم ہیرامنڈی پورے شہر میں پھیل گئی اور یہی حال پورے برصغیرہند،پاک کا ہوا۔ جسم فروشی کو کاروبار اور عبادت کا درجہ ان روسا اور امراءنے دیا تھا جونت نئی مذاہب کے ایجاد کرنے والے تھے۔ یوں تو بہت سے عوامل اس کیلئے اہم ہیں کہ کس طرح عورت اپنا تن فروش کرتی ہے۔ بھوک، زندگی سے بیزاری، شادی کا وقت پر نہ ہونا، جنسی مغالطے اور گھٹن جبکہ امیر طبقے کے لوگ بے دینی اور غربت میں مبتلا عورتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ جسم فروشی کریں۔ ان مردوں کی کثیر تعداد اس طرف آ رہی ہے جو بیروزگار ہیں اور معاش سے تنگ دوسری طرف ملا نے عورت کو تو پردے کا حکم سنا دیا پر مردوں کی شہوت کیلئے کھلی اجازت دے دی۔ اسی جنسی گھٹن میں اکثر لڑکے ایسے مقامات کا رخ کرتے ہیں جہاں عورتیں ایسے کام میں ملوث ہوں۔
جسم بیچنے کا لائسنس:
 معروف دانشور سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک افسانے ’لائسنس‘میںسماج کی تلخ حقیقت بیان کی تھی کہ’ایک عورت کو حصول معاش کیلئے تانگہ چلانے کا اجازت نامہ نہیں ملتا مگر جسم بیچنے کا لائسنس اسے مل جاتاہے۔ بیروزگاری کے باعث سماج کے تمام رشتے ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ غربت اور حالات سے تنگ آکر خواتین عصمت فروشی کی صنعت میں روزگار ڈھونڈ رہی ہیں۔ حالات سے تنگ آج جب عورت روزگار کی تلاش میں اپنی قوت محنت کا سودا کرنے بھی نکلتی ہے تو اسے وہاں سب سے پہلے جسم کاسودا کرنے پر مجبور کیا جاتاہے، بصورت دیگر اسے ملازمت نہیں مل سکتی۔ انتہائی تنگ دستی کے حالات میں انہیں ان کڑی شرائط کیساتھ کام کرنا پڑتاہے‘ اسے ہر وقت جنسی طورپر ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں خصوصاً پسماندہ ممالک کے اندر زیادہ تعداد میں لڑکیاں جسم فروشی کرنے پر مجبور ہیں۔ خاص کر معیشت کی اس خستہ حالی کے عہد میں جب روزگار کے مواقع پیدا ہی نہیں ہو رہے اس میں زندہ رہنے کیلئے عورتوں کی اکثریتی آبادی کو اس طرف رخ کرنا پڑتاہے۔ نہ صرف اندرون ملک بلکہ دوسرے ممالک سے عورتیں اسمگل کرنے کا کاروبار معمول بن چکا ہے۔
قول او رفعل میں تضاد:
ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں شاہد ہیں کہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی بڑی بڑی کانفرنسیں ہو رہی ہیں مگر اس کے باوجود اس کاروبار میں وسعت ہی آتی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے مبلغین اور پیٹی بورڑوادانشور میڈیا پر عورتوں کے حقوق کے متعلق بلند و بانگ تقریریں کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ این جی اوز خواتین کے نام پر اپنا کاروبار چمکا رہی ہیں۔ اخلاقیات کے ٹھیکیدار بنے پھرنے والے’معزز افراد‘ ایسے بھی ہیں جو دراصل پس پردہ اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ موجودہ نظام میں جہاں تمام ذرائع پیداوار سرمایہ داروں کی ملکیت میں ہیں وہاں ان کاروباروں اور ان اداروں کی ملکیت بھی بڑے بڑے مشیروں اور وزیروں کے پاس ہے۔ اعلیٰ آفیسران، سیکرٹری صاحبان، سفیروں اور امیروں کے نام جو ایک طرف اپنی عیاشیوں کیلئے عورت کو بازاروں میں نچواتے ہیں اور دوسری طرف چار دیواری کا درس دیتے ہیں۔ ‘ایک سروے کے مطابق 2011میں2,303 بچوں کیخلاف زیادتی کے کیس درج ہوئے جبکہ بے شمار معاملات ایسے ہیں جن کی نہ تو خبر اخبار میں آتی ہے اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کے پاس کوئی ریکارڈ ہے۔
جنسی استحصال کی یلغار:
ہزاروں بچے بس اسٹینڈاور ریلوے اسٹیشنوں کے علاقوں میں جنسی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔ شدید بھوک میں جسم فروشی کا فروغ پانا حیرت انگیز نہیں۔ مسلم ممالک اور جسم فروشی نام نہاد مسلم ممالک کے اندر ان دھندوں سے معصوم بچے بھی جبر اور جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ غربت اور بھوک نے بچوں کو بھی اس دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ بظاہر ان ممالک کے اندر جسم فروشی غیر قانونی ہے لیکن در پردہ انہی ممالک میں ہی زیادہ ہوتی ہے۔ مذہبی بنیاد پرست ہوں یا لبرل ازم کے ٹھیکیدار دونوں ہی اسی سرمایہ دارانہ نظام رکھوالے ہیں۔ جب تک اس نظام کو نہیں اکھاڑاجاتا اور نجی ملکیت ختم نہیں ہوتی جسم فروشی ختم نہیں ہوسکتی۔
جنوبی ایشیا بنا نشانہ:
ایک اندازے کے مطابق جنوبی ایشیا میں 30سے 35فیصد تک جسم فروشی کے دھندے میں ملوث خواتین کی عمر 12 سے 17 سال کے درمیان ہے۔ افغانستان جیسے ملک کے اندر بھی ایران، یوگینڈا، تاجکستان اور چین سے عورتیں منگوائی جاتی ہیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق تہران میں سب سے زیادہ جسم فروشی ہوتی ہے۔ طالبان کے زوال کے بعد عصمت فروشی نے مزید پیر پھیلائے بلکہ امریکی حمایت کی بدولت ملالہ کی معنوی شاگردوں نے مخلوط تعلیم کی آڑ میں بے راہ روی کے کاروبارکو سرپرستی میسر کروائی جو آج تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے اندر اگر دیکھیں تو خواتین کیساتھ بچوں کا بھی جنسی استحصال کیا جاتاہے۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2004میں ہوٹلوں، پارکوں اور ریلوے ا سٹیشنوںمیں 10,000 کم عمر لڑکیوں کو ان مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ معاشی حالات کے بگڑنے اور سرمائے کے استحصال میں اضافے کی وجہ سے اب ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بعض لڑکیاں زندہ رہنے کیلئے اپنی ماو ¿ں کا پیشہ اختیار کرتی ہیں جو 12سال سے کم عمری میں ہی اس پیشہ میں شامل ہو جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں دنیا کی دوسری بڑی گارمنٹس انڈسٹری ہے جو 24ارب ڈالر کا زرمبادلہ کماتی ہے۔ جہاں 90 فیصد سے زائد خواتین ملازم ہیں لیکن استحصال اتنا شدید ہے کہ وہ خواتین جنہیں جسم فروشی میں کام ملتا ہے انہیں خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے۔
حالات کی ماری خواتین:
ہندوستان کو عالمی طور پر ابھرتی ہوئی معیشت تصور کیا جاتا ہے جبکہ یہاںپیسے کمانے کیلئے جسم فروشی نے منڈیوں میں خواتین کی شرح کومسلسل فروغ دیا ۔ محض کلکتہ میں50 ہزار بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کررہے ہیں جن میں 80 فیصد کم عمر لڑکیاں ہیں ، اس وقت ملک میں جسم فروشی کی منڈی سے قانونی طور پر وابستہ خواتین کی تعداد6 لاکھ 80 ہزار ہے جبکہ ایک اندازہ کے مطابق اس منڈی میں عورتوں کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے جن میں سے 12لاکھ کم سن بچیاں ہیں جن کی عمر 18سال سے بھی کم ہے۔ یہ تعداد ان خواتین کی ہے جو مخصوص چکلوں سے وابستہ ہے حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔جبکہ پاکستان میں جسم میں سیکس ورکرز کی تعداد 15لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے، سیکس ورکر خواتین میں نہ صرف مقامی بلکہ بنگلہ دیش، ہندوستان، برما، افغانستان اور روسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شامل ہیں۔ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ IHRMکی رپورٹ شاہدہے کہ جسم فروشی کے پیشے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،ان جسم فروش عورتوںمیں 44فیصد خواتین غربت 32فیصد دھوکے اور فریب 18فیصد جبر وتشدد 4فیصد وہ خواتین جو انہی گھرانوں میں پیدا ہوئیں 2فیصد اپنی مرضی سے شامل ہیں۔
خطرناک اور موذی بیماریاں:
 ان میں سے 41.8فیصد خواتین 18سے 25سال کی ہیں جبکہ 6.21فیصد لڑکیاں18سال سے کم عمر کی ہیں۔ 56.79فیصد خواتین ان پڑھ ہیں اور 47فیصد سیکنڈری ا سکول کی تعلیم سے لیکر کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں جبکہ30فیصد غیر شادی شدہ لڑکیوں کیساتھ70فیصد شادی شدہ خواتین شامل ہیں۔ ان خواتین میں نہ صرف مقامی بلکہ گزشتہ 10برسوں میں بنگلہ دیش سے 5لاکھ خواتین ،برما سے 20ہزار ،افغانستان سے ایک لاکھ اور روسی ریاستوں اور دیگر ممالک سے ہزاروں خواتین پاکستان آئیں اور جسم فروشی کے پیشہ سے منسلک ہوگئیں۔ رپورٹ کے مطابق اس بے راہ روی کے نتیجے میں ایڈز جیسی موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور اب تک80ہزار کے قریب افراد اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسی طرح خواتین سیکس ورکرز کے مقابل جسم فروش لڑکوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جن میں نو عمر بچوں کی زیادہ تعداد قابل تشویش ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ جہاں ایک عام لڑکی اس پیشے میں25سے30 ہزار روپے کما تی ہے وہیں یہ لڑکے50 سے 70ہزار روپے کما لیتے ہیں۔کچھ عرصہ سے سیکس ورکر لڑکوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ ان میں14/15سال کے لڑکوں سے لیکر25/30سال تک کے لڑکے شامل ہیںجبکہ لڑکوں کی جسم فروشی اس معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک طویل عرصہ سے جا ری ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان لڑکوں میں، ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ گریجویٹ سطح کی تعلیم رکھنے والے بھی شامل ہیں۔ یہ لڑکے50ہزار سے70ہزار روپے تک ماہانہ کماتے ہیں جبکہ وہ لڑکے جو غیر ملکی سیاحوں وغیرہ کیلئے کام کرتے ہیں وہ ان سے زیادہ کماتے ہیں جبکہ انگریزی زبان بھی بولنا جانتے ہیں۔
جسم فروشی کوبنا دیں ’قانونی‘ ؟
حالانکہ جسم فروشی کے کاروبار پر بھارت بھر میں پابندی ہے تاہم کئی ریاستوں میں غیرقانونی طور پر یہ ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے تو 2009کے دوران ہے حکومت سے پوچھا تھا کہ جسم فروشی کے کاروبارکو قانونی حیثیت کیوں نہیں دی جا سکتی؟ عدالت کے مطابق اس کاروبار کو روکنا ایک ناممکن عمل ہے۔10دسمبرجمعرات کے روز ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج صاحبان دالویر بھنڈاری اور اے کے پٹنائیک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ جسم فروشی دنیا کے قدیم ترین پیشوں میں سے ایک ہے اور اسے روکنا ناممکن ہے تو اسے قانونی حیثیت دے دینے میں کیا عار ہو سکتاہے؟ کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جسم فروشی کو قانونی تحفظ دے کے عورتوں کی سمگلنگ اور سیکس ورکرز کو ایک مرتبہ پھر معاشرتی دھارے میں شمولیت ممکن بنایا جا سکتا ہے۔بچوں کی ا سمکلنگ سے متعلق ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججوں نے حکومت کے وکیل گوپال شپرمانیم سے پوچھا کہ اس کاروبار کو قانونی حیثیت نہ دینے کی وجہ کیا ہے جبکہ’اس طرح آپ اس کاروبار پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ ان افراد کو معاشرتی دھارے میں شامل کر سکتے ہیں۔ انہیں طبی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔ سیکس ورکرز چھپ کر کاروبار کریں یا سامنے، دنیا بھر میں کون سی جگہ اس کاروبار سزا دینے کر روکا جا سکا ہے۔‘ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے، چاہیں تو اپنی بیٹیوں کو فحاشہ ہونے سے بچا لیں، اور چاہیں تو پورے ملک کو ہی چکلہ بنا دیں۔ لیکن یہ بات ہر شخص کے ذہن میں رہے، کہ اگر پھر سے ان ہی سب سیاسی لٹیروں اور مذہب فروشوں کو ووٹ دیا تو پھر کسی کو کوئی حق نہیں کے کسی جسم فروش عورت کو گری ہوئی نظر سے دیکھے، کیوں کے اس کی جسم فروشی کے کہیں نہ کہیں ذمہ دار آپ بھی ہوںگے، اگر ایک جسم فروش عورت فحاشہ ہے تو پھرکسی بھر فرد کے پارسا ہونے کا دعوی عبث ہے۔ اب فیصلہ ہر صاحب ہوش اور غیرت مند کے ہاتھ میں ہے کہ اس کی وجہ دریافت کرکے اس کا سدباب کرے۔

Why Women'sCommission Chief Slammed?

By: Sajjad Ahmed
The new head of India's National Commission for Women (NCW) has sparked debate by comments supporting the legalisation of prostitution in the country, with some anti-trafficking groups claiming it would lead to further exploitation of women. According to reports, Friday, 24 October 2014, Lalitha Kumaramangalam, who was appointed as the NCW's chairperson in September, said decriminalising prostitution would help protect sex workers from violence and result in better health care for them.
"The legalisation of prostitution, what it will actually lead to, is easier control over the situation in which paid sex takes place," Kumaramangalam told the Indian channel NewsX https://www.youtube.com/watch?v=Kq3wxd-5mvE last week.
"Thereby you could do a lot more with regard to the plight of the women who are in sex work and also the health aspect of sex work and the violence which is often associated with commercial sex work."
The NCW advises government on policy regarding the rights of women in India and aims to provide a voice for their issues and concerns which range from sexual exploitation to employment.
The body has no authority to decriminalise sex work - a bill must be drafted, approved by the cabinet and then presented before parliament which would decide on whether to pass it. An official at the women's ministry said there were no plans to consider changing the laws regarding prostitution.
Groups which fight for the rights of sex workers, who have taken up sex work out of choice, say it is impossible to end the trade.
Decriminalising prostitution would regulate the sector, ensure better protection for those trafficked into the industry, and bring key freedoms and rights for sex workers.
Most importantly, they say, legalising prostitution would encourage society to respect sex workers as human beings and afford them equal dignity.
MORE OR LESS EXPLOITATION?
But Kumaramangalam's statement has alarmed some groups working against the trafficking of children and women in India who say that prostitution is an organised crime and a violation of fundamental human rights.
"Organised prostitution creates a demand for young girls for the brothels which is met by trafficking of minor girls from across the country. Trafficking and sexual slavery is worst form of human rights violation," said the Delhi-based charity Shakti Vahini, which has helped rescue thousands of children and women from traffickers.
"The statement of the National Commission for Women's chairperson for legalising prostitution is deplorable. No women joins this inhuman trade out of choice," it said in a statement.
Some 30 million people are enslaved worldwide, trafficked into brothels, forced into manual labour, victims of debt bondage or even born into servitude, a global index on modern slavery showed in October last year.
Almost half are in India, where slavery ranges from bonded labour in quarries and brick kilns to commercial sex exploitation, said the Australia-based Walk Freedom Foundation.
India sees thousands of young girls being trafficked, including many from Nepal and Bangladesh, forced into bonded sex work unable to escape and return home for years, if at all.
Rural girls from poor families, lured by traffickers with promises of jobs as maids in the cities, end up locked in unhygienic rooms in guesthouses, forced to have sex with many men without any sexual protection.
Anti-trafficking groups say sex workers are victims and that they should not be punished by the law and treated as criminals, but rehabilitated and given other options of work.
But they also believe that prostitution should be eradicated and that by punishing the clients, traffickers and brothel owners you will stamp out demand.
"No women joins this inhuman trade out of choice," said Shakti Vahini. "More then 95 percent of the women have been trafficked and forced into the sex trade."

0 comments:

Post a Comment

Visitors

Flag Counter