Tuesday, August 23, 2016

Every Kiss Begins With 80 Million بوسے کا زہر


سجاد احمد
حیا سے محروم برطانیہ کی کاکروچ لیڈی ڈیانا کسی صورت میںانسانیت کیلئے مثالی شخصیت نہیںہو سکتی۔کہا جاتا ہے کہ اس بدمعاش ، بے حیا اور بے آبرو عورت نے بے شمار شادی شدہ لوگوں کی ازواجی زندگی تباہ کی۔ایسی ہی معاشرت کی بدولت زمانہ بھر میں نت نئے رواج پارہے ہیں۔ابھی پندرہواڑ بھی نہیں گذراکھلے عام بوس و کنارمیں مشغول ہندوستان کھلے عام بے حیائی کی علامت بن گیا تھاجبکہ آج سائنس دانوں نے اس کے خلاف تحقیق پیش کردی ہے۔ 21 جوڑوں کی بوسہ لینے کی عادات کا مشاہدہ کرنے کے بعدسائنس دانوں نے دریافت کیاہے کہ وہ جوڑے جو دن میں نو مرتبہ بوسہ دیتے ہیں ان میں جراثیم کا سب سے زیادہ تبادلہ ہوتا ہے۔کشمیر سے کنیا کماری تک بھلے ہے بے شمار عورتوں اور مردوں نے مشرقی اقدار کو تارتار کیا ہو لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ محض دس سیکنڈ پر مشتمل ایک بوسے سے آٹھ کروڑ تک جراثیم کا تبادلہ ہو سکتا ہے۔حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ منھ میں 700 سے زیادہ اقسام کی بیکٹیریا پائے جاتے ہیں لیکن حالیہ تحقیق سے پتہ چلا کہ بعض اقسام کے بیکٹریا کا تبادلہ دوسروں کی نسبت زیادہ آسانی سے ہوتا ہے۔یہ ایسا ہی جیسے کہ جنسی بے راہ روی کے نتیجہ میں ایڈس کے قہر نے بے لگام مردوزن کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔
اخلاقی پولیسنگ:
یہ تحقیق جریدے ’مائیکرو بایوم‘ میں شائع ہوئی ہے۔وطن عزیز کے ماہرین بھلے ہی بوسوں کی بارش کے دوران خاموش رہے ہوں لیکن نیدرلینڈز کی آرگنائزیشن فار اپلائیڈ سائنٹفک ریسرچ نے 21 جوڑوں سے متعدد سوال پوچھ کر ان کی بوسہ لینے کی عادات کا مطالعہ کیا، جس میں یہ بھی شامل تھا کہ انھوں نے گذشتہ سال روزانہ کتنی بار بوسہ لیا اور آخری بار کب بوسہ لیا۔ان تمام حقائق سے بے پرواملک بھر میں ’ کِس آف لو‘ کے قصے عام ہوئے ۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ہندو مذہبی انتہا پسندوں کو یہ پیغام دینے کیلئے جگہ جگہ سڑکوں پر بوس و کنار کر تے ہوئے دیکھے گئے گویاکہ انھیں ’اخلاقی پولیسنگ‘ برداشت نہیں ہے، وہ اپنی زندگی اپنے انداز سے جینا چاہتے ہیں۔پیغام دینے کا یہ انداز بھی نرالا تھا جبکہ مظاہرین میں زیادہ تر نوجوان طلبہ شامل رہے۔ انھیں روکنے والے اگرطالبان ہوتے ہوتے تو شاید پوری دنیا چیخ پڑتی لیکن اس کا کیا کیجئے کہ یہ وہ لوگ تھے جوہندوستان کی مرکزی حکومت میں برسراقتدار بی جے پی کی ضمنی تنظیمیں سمجھی جاتی ہیں۔
کہاں گیا آنچل؟
مشرقی اقدارکی چادر میں لپٹا ہندوستان کھلے عام بے حیائی دیکھ کر اپنا منھ پیٹتاہوا نظر آیا۔ملک بھر میں مغربی معاشرہ کی یلغار سے قبل یہاںکی گلیوں نے خواتین کوکبھی بغیر گھونگھٹ کے نہیں دیکھا تھا، سر سے آنچل سرک جا ئے اس تصور سے ہی شرفا کے دل کانپ اٹھتے تھے لیکن تاریخ کی آنکوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ گھونکٹ کا ڈالنا اور سر پر آنچل رکھناتو درکنارآج اسے عیب تصور کیا جانے لگا ہے۔برصغیر ہند،پاک کومشرقی اقدار کا گہوارہ سمجھا جاتا رہا تھا، آج وہی خطہ بے حیائی کی علامت بن گیا۔ ملک میں سر عام بیچ شاہرا ہوں پر بے حیائی کے مناظر نے شرفا کو پانی پانی کردیا ۔نجانے حیا کی چادر میں لپٹی انسانیت کو کیا ہوگیا کہ سر عام انسانوں کی جھرمٹ میں بوس و کنارکرتی نظر آئی، جوخواتین کبھی گھونگھٹ کی اوٹ سے بھی بات کرتے شرم محسو س کرتی تھیں، سر عام صنف مخالف سے لپٹی ہوئی نظر آئیںجبکہ بے شمار لوگ تماشائی بنے اس حیا سوز حرکت کو دیکھنے پر مجبور دیکھے گئے۔
کہاں سے شروع ہوا سلسلہ؟
’کس آف لو‘کا شرمناک سلسلہ کالی کٹ سے شروع ہوکرکلکتہ تک جاپہنچا۔ ایک کیفے میں ہندو کار کنان نوجوان نسل کو بے راہ روی میں مبتلا دیکھ کر نالاں تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے یہ کہتے ہوئے مخالفت کی تھی کہ یہ جگہ صرف ڈیٹنگ کیلئے ہے اس لئے یہاں حیا سوز حرکتوں کی کسی طرح کی گنجائش نہیں ہے۔ پارکوں مخصوص کیفوں میںبے حیائی کو فروغ دینے والوں کے تو گویا آگ ہی لگ گئی۔ ان لوگوں نے احتجاج کے نام پر سر عام بے حیائی پر کمر باندھ لی ۔اس مظاہرہ کانام ’کس آف لو‘تجویز ہوا۔ اس کو فروغ دینے کیلئے جہا ں دوسرے ذرائع استعمال کئے گئے وہیں سوشل میڈیا خاص طور پر’فیس بک ‘کا استعمال کیا گیاجس میں کہا گیاکہ ہم سر عام شاہراہوں پر بوسے کا تبادلہ کر کے دنیا کو بتانا چاہیں گے کہ ہمیں ہماری بے پر دگی سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ اس شرمناک عمل کیلئے کوچی کے’میرین ڈرائیو ‘ کو منتخب کیا گیا، جہاں پولیس انتظامیہ کی پابندی کو منہ چڑاتے ہوئے 2نومبر کو عاشق جوڑوں نے آپس میں بوس وکنار کے ذریعہ مشرقی تہذیب و ثقافت کی دھجیاں بکھر کر رکھ دیں۔
حیا سوز احتجاج:
 یہ حیا سوز حرکتیں بڑی تیزی کے ساتھ کلکتہ پہنچیںجہاں خوب اودھم مچا۔اور پھروہ نوبت بھی آئی کہ ہندوستان کے دارالخلافہ بھی ہل کر رہ گیااورعین سنگھ کے دفترکے سامنے شرم و حیا کا برہنہ رقص کا اعلان کیا۔یہ الگ بات ہے کہ سنگھ کے جوانوں کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو وہ اس حیا سوز حرکت کو روکنے کیلئے کمربستہ ہوگئے۔قریب تھا کہ دونوں آمنے سامنے ہوتے لیکن پولیس انتظامیہ نے ماحول کو بگڑتے ہوئے ماحول پر قابو پالیا۔ان’ احتجاجیوں‘ کو میٹرو اسٹیشن کے باہر ہی روک دیاگیا جبکہ نام نہاد’ عشاق‘ نے متعینہ جگہ تک پہنچنے میں دشواری محسوس کی تو جو جہاں تھا اس نے ’کس آف لو ‘ کا مظاہرہ کیا۔اب حالیہ سائنسی تحقیق نے بھی ثابت کردیا ہے کہ اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے جبکہ یہ مشرقی تہذیب و ثقافت کے خلاف بھی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طریقہ کار کے ذریعہ مغرب کی سمت سے آنے والی ہواو ¿ں کا رخ موڑا جاسکتا ہے؟ آخر کس کی ذمہ داری ہے کہ مشرقی بہنوں کے سروں پر دوبارہ اوڑھنی رکھے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی مذہب نے بے حیائی کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے خواہ وہ اسلام ہو یا پھر ہندو، سکھ، عیسائی، مذہب ہو، ہندوستا نی مذاہب میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس لئے کہ حیا انسان کی فطرت ہے، جوشخص جتنا حیادار ہوگا اتنا ہی وہ اپنے معاشرہ میں باوقار سمجھا جائے گا۔
جراثیم کا قہر:
 فار اپلائیڈ سائنٹفک ریسرچ کے دوران سائنس دانوں نے ٹھیک دس سیکنڈ کے بوسے سے قبل اور بعد میں رضاکاروں کی زبانوں اور منھ سے نمونے حاصل کئے۔پھر جوڑے میں سے ایک فرد نے ایک ایسا مشروب پیا جس میں آسانی سے شناخت کئے جانے والے جراثیم موجود تھے۔جوڑے کے دوسرے بوسے کے بعد سائنس دانوں نے دوسرے پارٹنر کو منتقل کردہ جراثیم کی مقدار ناپی، جس سے پتہ چلا کہ دس سیکنڈ کے بوسے کے بعد اوسطاً آٹھ کروڑ بیکٹیریا منتقل ہوتے ہیں۔مزید یہ معلوم ہوا کہ اگرچہ تھوک میں بوسے کے بعد بیکٹیریا کی تعداد میں تیزی سے تبدیلی آئی، زبان پر موجود بیکٹیریا نسبتاً زیادہ مستحکم رہتے ہیں۔تحقیق کے سربراہ پروفیسر ریمکو کورٹ کے بقول ’فرینچ کسنگ سے مختصر وقت میں بہت بڑی تعداد میں جراثیم منتقل ہوتے ہیںلیکن ان میں سے کچھ جرثومے ہی زبان پر رہ پاتے ہیں لہذامزید تحقیق میں زبان پر موجود جراثیم کی خصوصیات کا جائزہ لینا چاہیے ۔اس تحقیق کا مثبت پہلو یہ ہے کہ مستقبل میں نقصان دہ جراثیم کے خلاف موثر ادویات بنانے میں مدد ملے گی جبکہ ولندیزی سائنس دانوں نے ’مائیکروپیا‘ نامی میوزیم کے ساتھ مل کر کام کیا۔ ایمسٹرڈیم میں واقع یہ میوزیم دنیا کا پہلا میوزیم ہے جہاں جراثیم نمائش کیلئے پیش کئے گئے ہیں۔اس میوزیم میں جوڑوں کو یہ سہولت فراہم کی گئی ہے کہ وہ بوسے کے بعد ایک دوسرے میں منتقل ہونے والے جراثیم کا جائزہ لے سکتے ہیں۔اس وقت سائنس دان ’مائیکروبایوم‘ پر خاصی تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ ایک ہزار ارب جراثیم پر مبنی وہ ماحولیاتی نظام ہے جو ہمارے جسم کے اندر اور جلد پر قائم ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان کے بے لگام جوڑوں کو یہ کون سمجھائے کہ جسم کے اندر جراثیم کی اس قدر بڑی تعداد صحت برقرار رکھنے اور بیماریوں سے بچانے میں مددگار ہوتی ہے۔

Every Kiss Begins With 80 Million Germs

By: Sajjad Ahmed
A kiss isn't just a kiss: It's also an opportunity to transfer millions of germs. According to reports, November 17, 2014, Dutch research that suggests 10 seconds of lip lock can translate into 80 million germs moving from one person to the other. And two people who smooch a bunch of times each day will end up sharing similar germs.
"Intimate kissing, involving full tongue contact and saliva exchange, appears to be a courtship behavior unique to humans and is common in over 90 percent of known cultures," study author Remco Kort, from TNO's Microbiology and Systems Biology department in the Netherlands, said in a BioMed Central news release.
Kort, an adviser to the Micropia museum of microbes in Amsterdam, added, "To our knowledge, the exact effects of intimate kissing on the oral microbiota [microscopic living organisms] have never been studied. We wanted to find out the extent to which partners share their oral microbiota, and it turns out, the more a couple kiss, the more similar they are."
In one experiment, the researchers gave 21 couples a probiotic drink containing bacteria before they kissed. Swab samples afterwards showed the transfer of those 80 million germs.
The researchers also found that tongue germs were more similar among couples compared to people who don't know each other.
But in the big picture, according to the news release, mouth germs play only a small part: The mouth is home to more than 700 types of bacteria, but the body houses more than 100 trillion microorganisms, which help with tasks like fighting disease and digesting food. The study was published in the journal Microbiome.

0 comments:

Post a Comment

Visitors

Flag Counter