Tuesday, August 23, 2016

Sex Work At US Bases امریکہ کی عیاش فوج


سجاد احمد
گذشتہ روزدنیا بھر میں اپنے اخلاق سوزاور انسانیت کو شرمسار کردینے میں بدنام زمانہ امریکی فوج کا ایک منفرد کارنامہ منظر عام پر آیا ہے۔ زمینی کارروائیوں کی ذمہ دار امریکی مسلح افواج کی اہم شاخ نےریاستہائے متحدہ امریکہ کی آزادی سے قبل 14 جون 1775 سے تادم تحریر کتنے گھروں کے چراغ گل کئے ہیں،کتنے معصوموں کے نوالے چھینے ہیں، کتنی خواتین کو بے آبرو کیا ہے،کتنی املاک پر ناجائز قبضہ کیا ہے،یہ تو طویل تحقیق طلب امر ہے جبکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ توسیع پسندی کی ہوس میں مبتلا جب بھی بے لگام بڑی فوجوں نے کہیں قیام کیا وہاں چھاونیوں کے گرد ونواح میں خستہ حال بستیاں قائم ہوتی رہی ہیں۔بے بس جنوبی کوریا میں ان بستیوں کی دیواریں امریکی فوجی اڈوں کی دیواروں تک پھیل گئی تھیں جو رات بھر بلند آواز موسیقی کی تھرتھراہٹ اور جلتے بجھتے برقی قمقموں میں ڈوبی رہتیں اور دن گذشتہ رات کی دھمکا چوکڑی کی باقیات کو سمیٹنے میں گزر جاتا تھا۔ماضی میں ایک ایسے ہی حیاسوز امریکی فوجی اڈے کے نزدیک کام کرنے والی 120 سابق طوائفوں نے جنوبی کوریا کی حکومت کے خلاف شرمناک معاوضے کیلئے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان بیچاریوں کو اپنی عزت و آبرو کے گنوانے اور صنف نازک کے بے وقعت ہونے کا تو کیا خاک احساس ہوتا ،انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے جسم فروشی میں ان کی اعانت کی اور انھیں بڑھاپے میں غربت سے دوچار کر دیا ہے۔
سرکاری بے راہ روی:
خواتین کو ’جہادالنکاح‘کے پرپیگنڈہ سے مطعون کرنے والے حقوق انسانی کے دعویدار امریکہ کے بدولت آج یہ بستیاں ایک عجیب قانونی چارہ جوئی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ یہاں بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی 120 سے زائد غریب خواتین نہ صرف امریکی حکام بلکہ اپنی حکومت کے خلاف 10 ہزار ڈالر فی کس کے ہرجانہ کے دعوے لے کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے امریکی فوجیوں کو خوش رکھنے کی خاطر جسم فروشی میں ان کی اعانت کی تھی۔گذشتہ دنوں یہ خواتین یوجینبو شہر کے نواح میں امریکی فوجی اڈہ کے قریب واقع ایک کمیونٹی سینٹر میںنہ صرف مجتمع ہوئیںبلکہ انھوں نے لوگوں کے سامنے اپنے مقدمہ کی وضاحت بھی کی۔سابقہ طوائفوں کا مقدمہ یہ نہیں ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے انھیں جسم فروشی پر مجبور کیا تھا، اس لحاظ سے یہ کوئی جنسی غلامی کا مقدمہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے چونکہ سرکاری سطح پر ان کی جنسی صحت کے معائنہ کا باقاعدہ نظام ترتیب دیا تھا اس لئے حکومت اس جرم میں شریک تھی اور حکومت کے نظام کی وجہ سے ہی وہ آج غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئی ہیں۔
’مغربی آداب‘ کی لعنت:
 ان خواتین کا کہنا ہے کہ جنسی صحت کے معائنوں کے علاوہ حکومت انھیں محفل کے ’مغربی آداب‘ اور انگریزی زبان کی تربیت بھی دیتی رہی ہے۔ کمیونٹی سینٹر میں جمع تمام خواتین نے تسلیم کیا کہ جسم فروشی کی جانب راغب ہونے کی وجہ یہی تھی کہ وہ خود بھی غریب تھیں اور ایک انتہائی غریب ملک میں زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے نوکری کی درخواستیں دی تھیں تو ان میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ کس قسم کی ملازمت ہوگی۔چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ ملازمت کیلئے منتخب ہونے کے بعد یہ خواتین خود کو کسی شراب خانے یا جسم فروشی کے اڈے پر پاتی تھیں، جہاں جلد ہی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہیں بار یا اڈے کے مالک سے ادھار لینا پڑ جاتا تھا، جس کے بعد وہ جسم فروشی کے نظام میں جکڑ لی جاتی تھیں۔
 ڈالروں کی ضرورت:
ایک خاتون نے عیاش فوجیوں کا بھانڈاپھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ 1972 میں جب میں ملازمت کیلئے ایک سینٹر پر پہنچی تو وہاں پر موجود افسر نے مجھے کہا کہ ذرا کرسی سے اٹھو اور پھر بیٹھ جاو۔ اس نے مجھے دیکھا اور مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے ایک ایسی ملازمت دلوائے گا جہاں رہنے کو جگہ اور کھانے کو ملے گا اور باقی سب چیزیوں کی ذمہ داری میرے باس کی ہو گی۔‘ سینٹر میں جمع خواتین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جسم فروشی میں حکومت کی خاموش رضامندی شامل تھی کیونکہ اس وقت ملک کو غیر ملکی کرنسی کی بھی ضرورت تھی۔ ’ہر کوئی طوائفوں کو تو برا بھلا کہتا تھا، لیکن طوائفیں ملک میں جو ڈالر لا رہی تھیں وہ حکومت کو بہت اچھے لگتے تھے۔‘یہاں تک کہ اگر کوئی عورت کلبوں میں کام کر کے ڈالر کماتی تھی تو اسے کہا جاتا تھا کہ وہ محب وطن ہے، یعنی ایک محنتی کوریائی خاتون۔ ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ انھوں نے ان برسوں میں بہت ڈالر کمائے تھے۔اپنی دکھ بھری داستانیں سناتے ہوئے کبھی تو غصے سے ان خواتین کی آواز بلند ہو جاتی تھی اور کبھی غم میں ڈوب جاتی تھی۔
عیش پرست فوجی:
ایک خاتون نے تو یہاں تک بتلایاہے کہ ’میں نے ایک ملازمت کی پیشکش قبول کر لی اور میں بار میں پہنچ گئی۔ لیکن میں بار میں پہنچتے ہی وہاں سے بھاگ گئی۔ آخر کار کلب کے مالک نے مجھے دوبارہ پکڑ لیا اور مجھے ایک دوسرے کلب کے مالک کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ یہاں پہنچنے کے بعد میں نے پہلی مرتبہ جسم فروشی کی۔‘ان خواتین کے دعوے اپنی جگہ، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا مقدمہ نہ صرف پیچیدہ ہے بلکہ عیش پرست فوجیوں کی قلعی بھی کھولتا ہے۔درحقیقت جنوبی کوریا کی حکومت نے جنسی صحت کے مراکز قائم کئے تھے، لیکن ان مراکز کی جگہ پہلے غیر سرکاری ڈاکٹر کام کر رہے تھے ان میں کچھ کی طبی تربیت درست نہیں تھی اور وہ ہر عورت کو یہ سرٹیفیکیٹ دے دیتے تھے کہ اس کی جنسی صحت بالکل ٹھیک ہے اور اس سے کسی مرد کو جنسی بیماری منتقل ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔کوریا کی حکومت ان خواتین کے مقدمے پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے گریز کر رہی ہے، تاہم جب مقدمہ عدالت میں پہنچے گا تو ممکن ہے حکومت یہ موقف اختیار کر لے کہ جنسی صحت کے مراکز قائم کرنے کا مقصد خواتین کی صحت کا خیال رکھنا تھا، نہ کہ جسم فروشی کی ترغیب دینا۔
’اتحادیوں میں سیکس‘:
دوسری جانب اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ 1970 کی دہائی میں جنوبی کوریا کی حکومت کو واقعی خدشہ تھا کہ امریکہ یہاں سے اپنی فوجیں واپس بلا سکتا ہے۔واشنگٹن میں برکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار اور جنوبی کوریا میں جسم فروشی اور اس میں امریکی فوجیوں کے کردار پر مستند ترین کتاب ’اتحادیوں میں سیکس‘ کی مصنفہ ڈاکٹر کیتھی مون نے بھی اس مقدمے کے حوالہ سے سنسی خیز انکشاف کیا ہے کہ میرا خیال ہے جہاں جنوبی کوریا کی حکومت کا کچھ کردار نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ 1970 کی دہائی میں مرکزی حکومت کے کچھ افسران نے امریکی چھاونیوں کے قریب ان بستیوں میں جا کر جسم فروشی کرنے والی خواتین سے کہا تھا کہ وہ امریکی فوج کے افسران سے تعاون کیا کریں۔‘امریکی مظالم کی یہ داستان نئی نہیں ہے بلکہ 9/11 کو جواز بنا کر افغانستان اور عراق پر امریکہ اور اس کے حواریوں نے جنگ مسلط کی۔
’حواریوں‘اور ’اتحادیوں کے کرتوت:
 افغانستان سب سے پہلے نشانہ بنا۔ افغانستان کے خلاف اس جنگ میں تقریباً تمام مغربی ممالک امریکہ کے حواری بن کر شامل ہو گئے۔یہ وہی حواری ہیں جنھیں ’اتحادی‘بھی کہا جاتا ہے۔ ان ممالک میں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، اور ناٹو تنظیم کے بیشتر ممالک شامل ہیں۔ اس کاروائی میں ناٹو فوجوں نے ہوائی طاقت کا بےشمار استعمال کرتے ہوئے فرضی دہشت گردوں کو نشانہ بناتے ہوئے انگنت بم افغانستان کے علاقہ پر گرائے۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو فوج انوکھے انداز سے جنگ لڑ رہی ہے۔ اگر امریکی فوجی فائرنگ کی زد میں آ جائیں تو فوراً بمبار لڑاکا ہوائی جہازوں کی مدد مانگ لیتے ہیں۔ لڑاکا جہاز سارے علاقے پر اندھا دھند بمباری کر کے سینکڑوں باشندوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ ویڈیو گیم کی طرح لوگوں کو فضا سے نشانہ بنا کر قتل کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر بارک اوبامہ نے 2009 میں جنوبی افغانستان کے پشتونوں کے خلاف جنگ تیز کرنے کیلئے میرین برگیڈ روانہ کیاجبکہ انکل سام کی سرکردگی میںناٹو فوجوں کی طرف سے قتل و غارت کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔

ہر پانچویں امریکی عورت کا حشر:
کوریا کی ان بے کس خواتین کویہ کون سمجھائے کہ جن فوجیوں کے ہاتھوں وہ بے آبرو ہوئی ہیںان کی گھٹی میںجنسی زیادتی شامل ہے۔خودامریکی حکومت کی ایجنسی کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ شاہد ہے کہ حالیہ ایام میںمحض12 ماہ کے عرصہ کے دوران 10 لاکھ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے، 60 لاکھ سے زائد مرد اور خواتین کا تعاقب کیا گیا جبکہ ایک لاکھ 20ہزار مرد و خواتین نے اپنے ہی ساتھی کی جانب سے جنسی زیادتی، جسمانی تشدد یا تعاقب کیے جانے کی شکایت کی۔امریکہ ٹیشنل سنٹر فار انجری پریوینشن اینڈ کنّرول نامی ادادرے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر لنڈا ڈیگٹس کے بقول ’جو لوگ جنسی تشدد، تعاقب یا اپنے ہی ساتھی کی جانب سے تشدد کا سامنا کرتے ہیں ان کی تمام زندگی پر اس کے اثرات رہتے ہیں۔‘جبکہ اعدادوشمار کے نتائج کے باعث تشدد کا شکار لوگوں میں تحفظ کے حوالہ سے خدشات اور ذہنی دباو میں اضافہ کا خدشہ بڑھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان میں دمہ، عدم برداشت، ذیابیطس، مسلسل سر درد، نہ ختم ہونے والی تکالیف، اور بیخوابی جیسے طبی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ 

ادھرکنواں،ادھرکھائی:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاامریکی فوجیوں کی زیادتیوں کیخلاف ان عورتوں کو اپنے ملک کی عدالت سے انصاف مل جائے گا؟جبکہ جنوبی کوریا کی وزارت برائے افرادی قوت کا کہنا ہے کہ نوکری کی خواہش مند خواتین کو چاہ
ئے کہ وہ انٹرویو میں کہیں کہ وہ ’سیکس کے بارے میں کیے گئے مذاق‘ کا برا نہیں منائیں۔بے شرمی کی انتہا تو یہ ہے کہ مذکورہ وزارت نے یہ موقف اپنے’ رہنما اصولوں‘پیش کیا ہے۔کسی کوشک ہوتو وہ سرکاری ریکروٹمنٹ کی ویب سائٹ کا مطالعہ کرسکتا ہے۔اس ویب سائٹ پر انٹرویو کے دوران ممکنہ سوالات کے جوابات کے حوالہ سے بیہودہ رہنما اصول شائع کئے گئے تھے،یہ الگ بات ہے کہ جنوبی کوریا میں خواتین کے حقوق کیلئے کام والی تنظیموں کی جانب سے ہنگامہ ہونے پر انھیں ہٹادیا گیا۔اس ویب سائٹ پر خواتین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ کہ جنسی استحصال کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب کچھ اس طرح دیں کہ ’ضروری ہے کہ اس قسم کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کیلئے جواباً مذاق کر دیا جائے جبکہ ذاتی زندگی کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو شادی کرنے کے ارادہ کے بارے میں جھوٹ بولنا چاہئے کیونکہ ’عام طور پر خواتین شادی کرنے کے بعد نوکری چھوڑ دیتی ہیں!‘

Sex Work At US Bases
By: Sajjad Ahmed
In the 1980s, the U.S. Subic Bay Naval Base in the Philippines was the largest U.S. military base outside of the U.S. with an estimated 500 million USD generated by the brothels surrounding it. Local traffickers and brothel owners engaged in the business of buying and selling women and girls to meet the demands of the servicemen stationed there. Alma, who had dreams of becoming an accountant, was one of the women sold in the local sex industry. After three years, she was able to escape this life and subsequently co-founded Buklod ng Kababaihan, a group that helps other exploited women. Though the U.S. bases in the Philippines officially closed in the 1990s, the problem persists today as U.S. sex tourists travel there to take advantage of the commercial sex industry entrenched by the once-large U.S. military presence. Thousands of U.S. servicemen are still deployed in the Philippines where they continue to seek out local women in prostitution despite laws against it. Alma and Buklod continue to fight the exploitation of the estimated 300,000 to 400,000 women and up to 100,000 children in the Philippines commercial sex industry. Now, more than 120 former prostitutes who worked near a US military base in South Korea are going to court to seek compensation from the Korean government. They say the authorities actively facilitated their work - and that the system has left them in poverty now that they are old. For as long as armies have gathered in garrisons, ramshackle "camp-towns" have grown up around them. In South Korea, they reach right up to the walls of US bases, by night, they throb with music and neon, by day, they seem to recover from the night before. According to reports, 28 November 2014, they are now the scene of an intriguing legal dispute. More than 120 former prostitutes, who are ageing and poor, are suing not the American authorities but their own government, demanding compensation of $10,000 (£6,360) each. Their argument is that the South Korean government facilitated their work in order to keep American forces happy.
In a community centre next to the US base at Uijeongbu City in South Korea, a group of them gather to explain their case. "We worked all night long. What I want is for the Korean government to recognise that this is a system that it created... and also compensation."
Their argument is not that South Korea compelled them to work as prostitutes - this is not a case of sexual slavery, but that by instituting a system of official and compulsory check-ups on their sexual health, it was complicit, and facilitated a system which now leaves them in poverty. It also, they say, gave them English lessons and courses in "Western etiquette".
The women invariably say that they were driven to prostitution because they were poor, living in a very poor country. They applied for unspecified jobs and then found themselves in bars and brothels having to borrow from the owner, and thus became locked into the system.
"In 1972, I went to an employment placement centre and the counsellor asked me to stand up and sit down. He took a look at me and then promised me a job that would give me a place to stay and food to eat, so I would just be working and my room and board would be taken care of by my boss," says one woman.
They also argue that there was tacit approval because the country needed foreign currency. The prostitutes were reviled as people but the dollars they earned were welcomed.
"There was this talk going round about earning dollars by working in the clubs, and that that would would make you a patriot - somebody who was a hard-working Korean. We did earn a lot of dollars in the camp town," one of the women tells me.
"I accepted a job and went to an establishment. As soon as I arrived I ran away. I ended up getting caught by the club owner and my club owner sold me off to another establishment and it was there that I took my first customer," says one.
But their case is complex. It is true that the South Korean government set up clinics, but these replaced an unofficial network of doctors, some of them poorly qualified, who certified women as free of sexually transmitted diseases. The government is not commenting on the case but it might argue, when the case comes to court, that setting up clinics wasn't facilitating prostitution but trying to protect the women involved.
There were certainly fears in the 1970s that Washington would pull troops out of South Korea.
"I think where the South Korean government has some culpability is that in the 1970s some Korean officials from the central government did go to these camp-towns and try to persuade these women who were working as sex workers to co-operate with the US military command," says Dr Kathy Moon of the Brookings Institution, who wrote Sex Among Allies, the definitive study of prostitution and the US military in South Korea.
"The priority was to keep the US military command happy so they would stay in Korea because there was a threat of pull-outs of US troops."
The priority in the clinics, Moon says, was "maintaining the health and well being of the US troops not the Korean women". The staff were only interested in the women's sexual health, and did not provide treatment for other illnesses.
Moon is at pains to point out that, unlike South Korea's World War Two "comfort women" - who were forced to become sex slaves by the Japanese military - many of these women took a decision to work as prostitutes, however reluctantly. They then become trapped, however.
"Once these women were there, they couldn't get out easily. They were raped continuously, raped by the manager," she says.
"Anything the bar owner deemed necessary for a woman to attract GIs to sell sex - make-up, clothing, some decoration in their hut rooms - was rented out to the women. If the women were ill or if they needed assistance to pay for a funeral for a family member, they would borrow from the bar owner. All of these expenses became part of their debt and unless you paid off this debt you couldn't leave".
Over the years, the attitude of the US military has changed. There is now what US Forces Korea calls "zero tolerance" of servicemen using prostitutes. Military police patrol red light areas, going into bars to seek transgressors. Prostitution has also been illegal in South Korea since 2004 - though nobody doubts that it continues.
The nature of the trade has changed too. When South Korea was a poor country, South Korean women were the sellers of sex around the bases. But today, now that South Korea is an increasingly affluent society, it's largely women from Russia and the Philippines who make up the workforce.
That doesn't diminish the pain and anxiety of the elderly women who now face a comfortless old age. Jang Young-mi, in her late 60s, lives in a grim single bedroom with her three dogs. She worked in a camp-town for two decades and now has only poverty to show for it. "Maybe because I lived for so long with American soldiers, I can't fit in with Koreans," she says. "Why did my life have to turn out this way?"

1 comment:

Visitors

Flag Counter