Tuesday, August 23, 2016

War Against Ebola ایبولا کیخلاف جنگ


سجاد احمد
ان دنوں عالمی سطح پر ایبولا کی دہشت طاری ہے۔یہ بیماری جسمانی رطوبتوں جیسے خون، پسینہ اور تھوک سے پھیلتی ہے جبکہ موت کے بعد بھی اس وائرس کے جراثیم کچھ دیر تک جسم میں رہتے ہیں اور اس دوران یہ اتنے ہی خطرناک ہوتے ہیں جتنے کسی زندہ مریض میں۔اس بیماری کی عمومی علامات میں تیز بخار، سر درد، جوڑوں میں درد، پٹھوں میں درد، گلے میں درد، کمزوری، معدے میں درد اور بھوک کا ختم ہو جاناشامل ہے۔ بیماری خطرناک مرحلہ میں داخل ہوتی ہے تو مریض کے جسم کے اندر خون بہنے لگتا ہے۔ اس کےساتھ ہی اس کی آنکھوں، کانوں اور ناک سے بھی خون بہنے لگتا ہے۔ بعض مریض خون کی الٹیاں بھی کرتے ہیں اور بعض مریض کھانسی کیساتھ خون تھوکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بعض مریضوں کے پاخانے کیساتھ خون آتا ہے اور جسم پر خسرے کے طرح کے دانے نکل آتے ہیں۔اس لئےے ایبولا کے مریضوں کے لاشوں کو چھونے والوں کو اس وبا سے متاثر ہونے کے بہت زیادہ خدشات لاحق ہوتے ہیں اور وہ عام طور پر حفاظتی لباس پہنتے ہیں۔صحت کے ماہرین کے بقول ایبولا سے ہلاک ہونے والے لوگوں کو فوری طور پر دفن کیا جانا چاہئے تاکہ انفیکشن پھیلنے کے خطرات کم سے کم ہو سکیں۔عالمی ادارہ صحت شاہد ہے کہ گزشتہ محض ایک ہفتہ کے دوران ایبولا وائرس سے متاثرہ ممالک میں اس وباکے 6 سو نئے معاملے سامنے آئے ۔
طبی ماہرین کا عزم:
مغربی افریقہ میں ایبولابیماری سے متاثر افراد کی تعداد بڑھ کربھلے ہی تقریبا16 ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ ہلاک ہونے والے مریضوں کی تعداد5 ہزار 6 سو99 سے تجاوز کرگئی ہے لیکن طبی ماہرین سے اس سے ہار نہیں مانی ہے۔عوام میںخوف کا یہ عالم ہے کہ سیئرا لیون کے شہر کینیما میں گورکنوں نے ایبولا سے ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کو سنبھالنے پر تنخواہ نہ ملنے پر احتجاج کرتے ہوئے لاشوں کو سر عام چھوڑ دیا۔ شہر کے مرکزی اسپتال میں احتجاجی کارکن لاشیں چھوڑکر چلے گئے۔ایک لاش کو اسپتال کے مینیجر کے دفتر کے باہر چھوڑ دیا گیا اور دو لاشوں کواسپتال کے داخلہ کے دروازہ کے باہر رکھ دیا گیا۔محض سیئرا لیون میں ایبولا کی وبا سے تقریباً 1200 ہلاکتیں ہوئیں۔بیماری اتنی شدید ہے کہ ایبولا کے متاثرین کی لاشیں دفنانے والے کارکنوں کو اس وائرس سے متاثر ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتاہے۔جبکہ کینیما نہ صرف سیئرا لیون کا تیسرا بڑا شہر ہے بلکہ مشرقی افریقہ کا بھی اہم شہر ہے اور یہیں پر ایبولا کی وبا نے جڑیں پکڑی تھیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ ہ کہ کارکنوں کو لاشیں دفنانے کیلئے اکتوبر اور نومبر میں اتفاق سے منظور کئے جانے والئے اضافی خطرے کا الاونس ادا نہیں کیا گیاتھا۔
کیا ہے ایبولا؟
عام طور پرلوگوں کواس حقیقت کا علم نہیں ہے کہ یہ ایک نہایت خطرناک اور جان لیواا انفیکشن کی بیماری ہے ، جوتیزی سے ا یک سے دوسرے شخص کو منتقل ہوتی ہے۔ اس وقت 2014 میں افریقی ملک لائبیریا اس کی وبا پھوٹی ہوئی ہے۔ ایبولا وائرس ایک ایسی خطرناک ترین بیماری ہے جسے ’ایبولا ہیمرجک فیور‘Ebola Hemorrhagic Fever بھی کہا جاتا تھا۔ ایبولا بخارمیں مبتلا 90 فیصد افراد کو ہلاکت کا خدشہ لاحق ہوتا ہے۔ اس بیماری میں بھی ویسی ہی علامات پائی جاتی ہیں جو ڈینگی بخار میںپائی جاتی ہیں۔ ڈینگی بخار کی طرح ابھی تک ایبولا کیلئے بھی کوئی ویکسین نہیں بنائی جا سکی۔اس بیماری کیخلاف لڑنے والے عملہ کو ایسا لباس زیب تن کرنا پڑتا ہے جو انتہائی گرم ہوتا ہے۔اس قسم کے ملبوسات کو پہن کر محض سوئٹزرلینڈ جیسے سرد مقام پر ہی رہا جاسکتا ہے۔
کیا ہے علاج؟
طبی ماہرین کے مطابق جس شخص کے بارے میں تصدیق ہو جائے کہ وہ ایبولا وائرس سے لاحق ہونے بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے، اسے فوراً دوسرے انسانوں سے الگ تھلگ کر دینا چاہئے تاکہ بیماری دوسرے انسانوں کو نہ لگ جائے۔ مریض کو ٹھوس غذا نہ دی جائے۔ اسے آکسیجن بھی لگائی جاتی ہے۔ خون کا دباو  یعنی بلڈ پریشر معمول پر رکھنے کی دوائیں بھی دی جاتی ہیں اور اسے خون بھی چڑھایا جاتا ہے۔ اس وائرس سے بچنے کیلئے تاحال کوئی ویکسین موجود نہیں ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان علاقوں کا سفر بالکل نہیں کیا جائے جہاں ایبولا وائرس پایا جاتا ہو یا پھیل چکا ہو۔ حفظانِ صحت کی خدمات انجام دینے والے افراد بھی نقاب لگا کر، دستانے پہن کر اور عینک لگا کر اس وائرس سے بچنے کی تدبیر کر سکتے ہیں۔
کیسے پڑا نام؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سب سے پہلے یہ بیماری وسطیٰ اور مغربی افریقہ کے دور دراز دیہاتوں میں آئی جو کہ برساتی جنگلات کے قریب تھے۔ وائرس پہلے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ اس کے بعد انسانوں سے انسانوں میں پھیلا۔ 1976 میں یہ مرض سب سے پہلے کانگو اور سوڈان میں رپورٹ ہوا۔یہ وائرس افریقی جنگلات میں بیمار جانوروں بن مانس، بندر، چمگادڑ اور دوسرے جانوروں سے انسانوں میں آیا۔1976کے دوران ایبولا وائرس پہلی بار دریا سے 60 میل کے فاصلے پر یامبوکو میں شناخت کیا گیا تھا لئےکن پروفیسر پیٹر پایٹ نے اسے قصبہ کی بجائے دریا کا نام دیا تاکہ قصبہ بیماری کی بدنامی سے محفوظ رہے۔ اس لئے ایبولا وائرس اور ایبولا وائرس بیماری دریائے ایبولا سے موسوم ہیں۔ بعد ازاں اس دریافت کے باوجود کہ دریائے ایبولا یامبوکو گاو ¿ں کے قربت میں نہیں اسکا نام برقرار رہا۔
زیر آزمائش ویکسین:
ایبولاکے خطرناک وائرس کے انسداد کیلئے زیر آزمائش ویکسین کے پہلے مرحلہ کے نتائج مثبت آئے ہیںجس کے بعد محققین نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ وہ اِس مہلک وباکا علاج دریافت کرنے کے مزید ایک قدم قریب پہنچ گئے ۔ امریکی ’نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ‘ یا NIH کے مطابق ایبولا وائرس کے خاتمہ کیلئے تیار کردہ ویکسین کی آزمائش کے پہلے مرحلہ میں اسے20 بالغ اور صحت مند افراد کو مختلف مقداروں میں دیا گیا۔ اس طبّی ٹیسٹ کا حصہ بننے والے تمام کے تمام افراد میں ایبولا وائرس کیخلاف کارآمد ثابت ہونے والے ’اینٹی باڈیز‘ بنیں۔ نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ کے اس طبّی ٹیسٹ کے نتائج بدھ کے روز ’نیو انگلئےنڈ جرنل آف میڈیسن‘ میں شائع ہوئے۔یہ ویکسین ’گلئےکسو اسمتھ کلائن‘ نامی ایک فارماسیوٹیکل کمپنی اور امریکی ’نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز‘ کے اشتراک سے تیار کی جا رہی ہے۔ اس ادارہ کے سربراہ انتھونی فوسی کے بقول’جو ویکسین تیار کی جا رہی ہے، وہ اس وباکے خاتمہ اور مستقبل میں بڑے پیمانے پر پھیلاو  کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔‘
 بڑے ٹیسٹوں کی تیاری:
ان کے بقول انسانوں پر کی جانے والے پہلے طبّی آزمائش کے مثبت نتائج کی بنیاد پر وہ مستقبل قریب میں اسی طرز کے مزید بڑے ٹیسٹ کرنے کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ اس بات کا حتمی طور پر تعین کیا جا سکے کہ آیا یہ ویکسین وائرس کے خاتمہ میں کار آمد ثابت ہو گی تاہم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز کے سربراہ نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ ویکسین ابھی ’فیلڈ‘ میں یا متاثرہ مقامات و ممالک میں استعمال سے کئی ماہ دور ہے۔امریکہ کے ادارہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایبولا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ مغربی افریقی ممالک میں سے ایک لائبیریا کے حکام کیساتھ اس بارے میں مشاورت جاری ہے تا کہ وہاں اگلے مرحلہ کے ٹیسٹ کئے جائیں تاہم ممکنہ ٹیسٹ آئندہ برس ہی ہو سکیں گے۔اس سلسلہ میں وائٹ ہاو ¿س کی جانب سے ویکسین پر کام کرنے والے محققین کی ٹیم کو اس پیش رفت پر مبارکباد پیش کی گئی ۔ وائٹ ہاوس کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر باراک اوباما آئندہ ہفتہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز کے دفتر کا دورہ کریں گے۔یہ امر اہم ہے کہ ایبولا وائرس کے خاتمہ کیلئے زیر آزمائش یہ واحد ویکسین نہیں ہے۔اس کے علاوہ ایک اور ویکسین ہے، جس کا مقصد ایبولا کی ایک مخصوص قسم کو روکنا ہے، یونیورسٹی آف میری لینڈ میں اکتوبر سے زیر آزمائش ہے۔ کینیڈا میں بھی ایک اور ویکسین انسانوں پر ابتدائی آزمائش کے دوران مثبت نتائج ظاہر کر رہی ہے۔
تشخیص 15 منٹ میں ممکن:
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افریقی ملک گنی میں ایبولا وائرس کی تشخیص کیلئے ایک نئے ٹیسٹ کا تجربہ کیا جا رہا ہے جس میں تھوک اور خون کے نمونوں سے اس کا پتہ چلایا جا سکے گا۔شمسی توانائی کے استعمال سے چلنے والئے نئی لئےبارٹری سے مغربی افریقہ میں جس طریقے سے اس وقت ایبولا کی تشخیص کی جا رہی ہے، اس سے 6گنا کم وقت میں ایبولا کی تشخیص ممکن ہو سکے گی۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس کی کم سے کم وقت میں تشخیص سے اس کے مریضوں کے بچنے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور اس وائرس کے پھیلنے کے خدشات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔یہ نیا ٹیسٹ گنی کے شہر کوناکری کے ایبولا کے علاج کے مرکز میں تجرباتی طور پر کیا جائے گا۔روایتی طریقے سے ایبولا کے جراثیم کا پتہ مریض کے خون میں موجود ایبولا وائرس کے جنیاتی اجزا کو ڈھونڈ کر کیا جاتا ہے۔رواں مہینہ کے دوران ہی دہلی میں ایبولا سے متاثر شخص مادہ منویہ کے ٹیسٹ کے بعد ہی شاخت کیا جاسکا تھا۔
مخصوص لیبارٹریوں کی ضرورت:
تحقیق کاروں نے اس بات کو مد نظر رکھا کہ کس طرح دور دراز کے اسپتالوں میں جہاں طبی سہولیات کی اکثر کمی رہتی ہے، وہاں ایبولا کا ٹیسٹ کسی طرح کروایا جائے لیکن اس کیلئے مخصوص لیبارٹریوں کی ضرورت پڑتی ہے جہاں ٹیسٹ کے اجزا کو انتہائی کم درجہ حرارت پر رکھا جا سکے۔کوناکری میں تجرباتی مرحلہ میں ان مریضوں کا نئے طریقہ سے ٹیسٹ کیا جائے گا جن کے بارے میں پہلے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ایبولا سے متاثر ہیں۔شمسی توانائی سے چلنے والے ایک سوٹ کیس کے سائز کی اس نئی لیبارٹری کو ہر جگہ لے جایا جا سکتا ہے، اور اسے سینیگال کے شہر ڈاکار میں پاسچر انسٹی ٹیوٹ کی رہنمائی میں چلایا جا رہا ہے۔اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس لیبارٹری کو کمرہ کے درجہ حرارت پر بھی استعمال میں لایاجاسکتا ہے۔اس منصوبہ کیلئے سرمایہ برطانیہ کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے اور ویلکم ٹرسٹ میڈیکل کا خیراتی ادارہ فراہم کر رہے ہیں۔ویلکم ٹرسٹ کے ڈاکٹر وال سیون کے بقول محض15 منٹ میں ایک قابل اعتبار ٹیسٹ سے ایبولا کی وبا کو کنٹرول کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے جس سے مریضوں کی نشاندہی، انھیں الگ کرنے اور ان کا علاج کرنا ممکن ہو سکے گا۔اس سے مریضوں کے صحت یاب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور ایبولا کا وائرس دوسرے لوگوں تک منتقل ہونے سے روکا جا سکے گا۔‘


War Against Ebola
By: Sajjad Ahmed
A 15-minute blood and saliva test for Ebola is to be trialled in Guinea, it has been announced. According to reports, 28 November 2014, the solar-powered, portable laboratory should deliver results six times faster than tests currently used in West Africa.
The researchers involved say faster diagnosis would increase the chances of survival and reduce transmission of the virus. The trial will take place at an Ebola treatment centre in Conakry, Guinea. Ebola is currently diagnosed by hunting for the virus's genetic material in the blood of a patient. But it requires dedicated laboratories that can keep the components of the test at very low temperatures. Patients in Conakry will still have the proven test, but the new faster method will be trialled at the same time so the results can be compared.
Solar-powered
The project, led by the Pasteur Institute in Dakar, Senegal, uses a 'mobile suitcase laboratory'. It is portable, solar-powered and can be used at room temperature. The project is being funded by the Wellcome Trust medical charity and the UK's Department for International Development. Dr Val Snewin, the international activities manager at the Wellcome Trust, said: "A reliable, 15-minute test that can confirm cases of Ebola would be a key tool for effective management of the Ebola outbreak - allowing patients to be identified, isolated and cared for as soon as possible. "It not only gives patients a better chance of survival, but it prevents transmission of the virus to other people. "This pilot study is particularly promising because researchers have considered how to make the test suitable for use in remote field hospitals, where resources - such as electricity and cold storage, are often in short supply." The UK's International Development Secretary Justine Greening said: "The UK is doing everything possible to help the government of Sierra Leone tackle and ultimately defeat Ebola. "Funding this groundbreaking research will develop new ways of diagnosing suspected cases even more quickly and stop more people suffering from this deadly virus."

0 comments:

Post a Comment

Visitors

Flag Counter