Tuesday, August 23, 2016

Sex Work At US Bases امریکہ کی عیاش فوج


سجاد احمد
گذشتہ روزدنیا بھر میں اپنے اخلاق سوزاور انسانیت کو شرمسار کردینے میں بدنام زمانہ امریکی فوج کا ایک منفرد کارنامہ منظر عام پر آیا ہے۔ زمینی کارروائیوں کی ذمہ دار امریکی مسلح افواج کی اہم شاخ نےریاستہائے متحدہ امریکہ کی آزادی سے قبل 14 جون 1775 سے تادم تحریر کتنے گھروں کے چراغ گل کئے ہیں،کتنے معصوموں کے نوالے چھینے ہیں، کتنی خواتین کو بے آبرو کیا ہے،کتنی املاک پر ناجائز قبضہ کیا ہے،یہ تو طویل تحقیق طلب امر ہے جبکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ توسیع پسندی کی ہوس میں مبتلا جب بھی بے لگام بڑی فوجوں نے کہیں قیام کیا وہاں چھاونیوں کے گرد ونواح میں خستہ حال بستیاں قائم ہوتی رہی ہیں۔بے بس جنوبی کوریا میں ان بستیوں کی دیواریں امریکی فوجی اڈوں کی دیواروں تک پھیل گئی تھیں جو رات بھر بلند آواز موسیقی کی تھرتھراہٹ اور جلتے بجھتے برقی قمقموں میں ڈوبی رہتیں اور دن گذشتہ رات کی دھمکا چوکڑی کی باقیات کو سمیٹنے میں گزر جاتا تھا۔ماضی میں ایک ایسے ہی حیاسوز امریکی فوجی اڈے کے نزدیک کام کرنے والی 120 سابق طوائفوں نے جنوبی کوریا کی حکومت کے خلاف شرمناک معاوضے کیلئے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان بیچاریوں کو اپنی عزت و آبرو کے گنوانے اور صنف نازک کے بے وقعت ہونے کا تو کیا خاک احساس ہوتا ،انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے جسم فروشی میں ان کی اعانت کی اور انھیں بڑھاپے میں غربت سے دوچار کر دیا ہے۔
سرکاری بے راہ روی:
خواتین کو ’جہادالنکاح‘کے پرپیگنڈہ سے مطعون کرنے والے حقوق انسانی کے دعویدار امریکہ کے بدولت آج یہ بستیاں ایک عجیب قانونی چارہ جوئی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ یہاں بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی 120 سے زائد غریب خواتین نہ صرف امریکی حکام بلکہ اپنی حکومت کے خلاف 10 ہزار ڈالر فی کس کے ہرجانہ کے دعوے لے کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے امریکی فوجیوں کو خوش رکھنے کی خاطر جسم فروشی میں ان کی اعانت کی تھی۔گذشتہ دنوں یہ خواتین یوجینبو شہر کے نواح میں امریکی فوجی اڈہ کے قریب واقع ایک کمیونٹی سینٹر میںنہ صرف مجتمع ہوئیںبلکہ انھوں نے لوگوں کے سامنے اپنے مقدمہ کی وضاحت بھی کی۔سابقہ طوائفوں کا مقدمہ یہ نہیں ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے انھیں جسم فروشی پر مجبور کیا تھا، اس لحاظ سے یہ کوئی جنسی غلامی کا مقدمہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے چونکہ سرکاری سطح پر ان کی جنسی صحت کے معائنہ کا باقاعدہ نظام ترتیب دیا تھا اس لئے حکومت اس جرم میں شریک تھی اور حکومت کے نظام کی وجہ سے ہی وہ آج غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئی ہیں۔
’مغربی آداب‘ کی لعنت:
 ان خواتین کا کہنا ہے کہ جنسی صحت کے معائنوں کے علاوہ حکومت انھیں محفل کے ’مغربی آداب‘ اور انگریزی زبان کی تربیت بھی دیتی رہی ہے۔ کمیونٹی سینٹر میں جمع تمام خواتین نے تسلیم کیا کہ جسم فروشی کی جانب راغب ہونے کی وجہ یہی تھی کہ وہ خود بھی غریب تھیں اور ایک انتہائی غریب ملک میں زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے نوکری کی درخواستیں دی تھیں تو ان میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ کس قسم کی ملازمت ہوگی۔چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ ملازمت کیلئے منتخب ہونے کے بعد یہ خواتین خود کو کسی شراب خانے یا جسم فروشی کے اڈے پر پاتی تھیں، جہاں جلد ہی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہیں بار یا اڈے کے مالک سے ادھار لینا پڑ جاتا تھا، جس کے بعد وہ جسم فروشی کے نظام میں جکڑ لی جاتی تھیں۔
 ڈالروں کی ضرورت:
ایک خاتون نے عیاش فوجیوں کا بھانڈاپھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ 1972 میں جب میں ملازمت کیلئے ایک سینٹر پر پہنچی تو وہاں پر موجود افسر نے مجھے کہا کہ ذرا کرسی سے اٹھو اور پھر بیٹھ جاو۔ اس نے مجھے دیکھا اور مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے ایک ایسی ملازمت دلوائے گا جہاں رہنے کو جگہ اور کھانے کو ملے گا اور باقی سب چیزیوں کی ذمہ داری میرے باس کی ہو گی۔‘ سینٹر میں جمع خواتین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جسم فروشی میں حکومت کی خاموش رضامندی شامل تھی کیونکہ اس وقت ملک کو غیر ملکی کرنسی کی بھی ضرورت تھی۔ ’ہر کوئی طوائفوں کو تو برا بھلا کہتا تھا، لیکن طوائفیں ملک میں جو ڈالر لا رہی تھیں وہ حکومت کو بہت اچھے لگتے تھے۔‘یہاں تک کہ اگر کوئی عورت کلبوں میں کام کر کے ڈالر کماتی تھی تو اسے کہا جاتا تھا کہ وہ محب وطن ہے، یعنی ایک محنتی کوریائی خاتون۔ ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ انھوں نے ان برسوں میں بہت ڈالر کمائے تھے۔اپنی دکھ بھری داستانیں سناتے ہوئے کبھی تو غصے سے ان خواتین کی آواز بلند ہو جاتی تھی اور کبھی غم میں ڈوب جاتی تھی۔
عیش پرست فوجی:
ایک خاتون نے تو یہاں تک بتلایاہے کہ ’میں نے ایک ملازمت کی پیشکش قبول کر لی اور میں بار میں پہنچ گئی۔ لیکن میں بار میں پہنچتے ہی وہاں سے بھاگ گئی۔ آخر کار کلب کے مالک نے مجھے دوبارہ پکڑ لیا اور مجھے ایک دوسرے کلب کے مالک کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ یہاں پہنچنے کے بعد میں نے پہلی مرتبہ جسم فروشی کی۔‘ان خواتین کے دعوے اپنی جگہ، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا مقدمہ نہ صرف پیچیدہ ہے بلکہ عیش پرست فوجیوں کی قلعی بھی کھولتا ہے۔درحقیقت جنوبی کوریا کی حکومت نے جنسی صحت کے مراکز قائم کئے تھے، لیکن ان مراکز کی جگہ پہلے غیر سرکاری ڈاکٹر کام کر رہے تھے ان میں کچھ کی طبی تربیت درست نہیں تھی اور وہ ہر عورت کو یہ سرٹیفیکیٹ دے دیتے تھے کہ اس کی جنسی صحت بالکل ٹھیک ہے اور اس سے کسی مرد کو جنسی بیماری منتقل ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔کوریا کی حکومت ان خواتین کے مقدمے پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے گریز کر رہی ہے، تاہم جب مقدمہ عدالت میں پہنچے گا تو ممکن ہے حکومت یہ موقف اختیار کر لے کہ جنسی صحت کے مراکز قائم کرنے کا مقصد خواتین کی صحت کا خیال رکھنا تھا، نہ کہ جسم فروشی کی ترغیب دینا۔
’اتحادیوں میں سیکس‘:
دوسری جانب اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ 1970 کی دہائی میں جنوبی کوریا کی حکومت کو واقعی خدشہ تھا کہ امریکہ یہاں سے اپنی فوجیں واپس بلا سکتا ہے۔واشنگٹن میں برکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار اور جنوبی کوریا میں جسم فروشی اور اس میں امریکی فوجیوں کے کردار پر مستند ترین کتاب ’اتحادیوں میں سیکس‘ کی مصنفہ ڈاکٹر کیتھی مون نے بھی اس مقدمے کے حوالہ سے سنسی خیز انکشاف کیا ہے کہ میرا خیال ہے جہاں جنوبی کوریا کی حکومت کا کچھ کردار نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ 1970 کی دہائی میں مرکزی حکومت کے کچھ افسران نے امریکی چھاونیوں کے قریب ان بستیوں میں جا کر جسم فروشی کرنے والی خواتین سے کہا تھا کہ وہ امریکی فوج کے افسران سے تعاون کیا کریں۔‘امریکی مظالم کی یہ داستان نئی نہیں ہے بلکہ 9/11 کو جواز بنا کر افغانستان اور عراق پر امریکہ اور اس کے حواریوں نے جنگ مسلط کی۔
’حواریوں‘اور ’اتحادیوں کے کرتوت:
 افغانستان سب سے پہلے نشانہ بنا۔ افغانستان کے خلاف اس جنگ میں تقریباً تمام مغربی ممالک امریکہ کے حواری بن کر شامل ہو گئے۔یہ وہی حواری ہیں جنھیں ’اتحادی‘بھی کہا جاتا ہے۔ ان ممالک میں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، اور ناٹو تنظیم کے بیشتر ممالک شامل ہیں۔ اس کاروائی میں ناٹو فوجوں نے ہوائی طاقت کا بےشمار استعمال کرتے ہوئے فرضی دہشت گردوں کو نشانہ بناتے ہوئے انگنت بم افغانستان کے علاقہ پر گرائے۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو فوج انوکھے انداز سے جنگ لڑ رہی ہے۔ اگر امریکی فوجی فائرنگ کی زد میں آ جائیں تو فوراً بمبار لڑاکا ہوائی جہازوں کی مدد مانگ لیتے ہیں۔ لڑاکا جہاز سارے علاقے پر اندھا دھند بمباری کر کے سینکڑوں باشندوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ ویڈیو گیم کی طرح لوگوں کو فضا سے نشانہ بنا کر قتل کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر بارک اوبامہ نے 2009 میں جنوبی افغانستان کے پشتونوں کے خلاف جنگ تیز کرنے کیلئے میرین برگیڈ روانہ کیاجبکہ انکل سام کی سرکردگی میںناٹو فوجوں کی طرف سے قتل و غارت کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔

ہر پانچویں امریکی عورت کا حشر:
کوریا کی ان بے کس خواتین کویہ کون سمجھائے کہ جن فوجیوں کے ہاتھوں وہ بے آبرو ہوئی ہیںان کی گھٹی میںجنسی زیادتی شامل ہے۔خودامریکی حکومت کی ایجنسی کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ شاہد ہے کہ حالیہ ایام میںمحض12 ماہ کے عرصہ کے دوران 10 لاکھ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے، 60 لاکھ سے زائد مرد اور خواتین کا تعاقب کیا گیا جبکہ ایک لاکھ 20ہزار مرد و خواتین نے اپنے ہی ساتھی کی جانب سے جنسی زیادتی، جسمانی تشدد یا تعاقب کیے جانے کی شکایت کی۔امریکہ ٹیشنل سنٹر فار انجری پریوینشن اینڈ کنّرول نامی ادادرے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر لنڈا ڈیگٹس کے بقول ’جو لوگ جنسی تشدد، تعاقب یا اپنے ہی ساتھی کی جانب سے تشدد کا سامنا کرتے ہیں ان کی تمام زندگی پر اس کے اثرات رہتے ہیں۔‘جبکہ اعدادوشمار کے نتائج کے باعث تشدد کا شکار لوگوں میں تحفظ کے حوالہ سے خدشات اور ذہنی دباو میں اضافہ کا خدشہ بڑھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان میں دمہ، عدم برداشت، ذیابیطس، مسلسل سر درد، نہ ختم ہونے والی تکالیف، اور بیخوابی جیسے طبی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ 

ادھرکنواں،ادھرکھائی:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاامریکی فوجیوں کی زیادتیوں کیخلاف ان عورتوں کو اپنے ملک کی عدالت سے انصاف مل جائے گا؟جبکہ جنوبی کوریا کی وزارت برائے افرادی قوت کا کہنا ہے کہ نوکری کی خواہش مند خواتین کو چاہ
ئے کہ وہ انٹرویو میں کہیں کہ وہ ’سیکس کے بارے میں کیے گئے مذاق‘ کا برا نہیں منائیں۔بے شرمی کی انتہا تو یہ ہے کہ مذکورہ وزارت نے یہ موقف اپنے’ رہنما اصولوں‘پیش کیا ہے۔کسی کوشک ہوتو وہ سرکاری ریکروٹمنٹ کی ویب سائٹ کا مطالعہ کرسکتا ہے۔اس ویب سائٹ پر انٹرویو کے دوران ممکنہ سوالات کے جوابات کے حوالہ سے بیہودہ رہنما اصول شائع کئے گئے تھے،یہ الگ بات ہے کہ جنوبی کوریا میں خواتین کے حقوق کیلئے کام والی تنظیموں کی جانب سے ہنگامہ ہونے پر انھیں ہٹادیا گیا۔اس ویب سائٹ پر خواتین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ کہ جنسی استحصال کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب کچھ اس طرح دیں کہ ’ضروری ہے کہ اس قسم کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کیلئے جواباً مذاق کر دیا جائے جبکہ ذاتی زندگی کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو شادی کرنے کے ارادہ کے بارے میں جھوٹ بولنا چاہئے کیونکہ ’عام طور پر خواتین شادی کرنے کے بعد نوکری چھوڑ دیتی ہیں!‘

Sex Work At US Bases
By: Sajjad Ahmed
In the 1980s, the U.S. Subic Bay Naval Base in the Philippines was the largest U.S. military base outside of the U.S. with an estimated 500 million USD generated by the brothels surrounding it. Local traffickers and brothel owners engaged in the business of buying and selling women and girls to meet the demands of the servicemen stationed there. Alma, who had dreams of becoming an accountant, was one of the women sold in the local sex industry. After three years, she was able to escape this life and subsequently co-founded Buklod ng Kababaihan, a group that helps other exploited women. Though the U.S. bases in the Philippines officially closed in the 1990s, the problem persists today as U.S. sex tourists travel there to take advantage of the commercial sex industry entrenched by the once-large U.S. military presence. Thousands of U.S. servicemen are still deployed in the Philippines where they continue to seek out local women in prostitution despite laws against it. Alma and Buklod continue to fight the exploitation of the estimated 300,000 to 400,000 women and up to 100,000 children in the Philippines commercial sex industry. Now, more than 120 former prostitutes who worked near a US military base in South Korea are going to court to seek compensation from the Korean government. They say the authorities actively facilitated their work - and that the system has left them in poverty now that they are old. For as long as armies have gathered in garrisons, ramshackle "camp-towns" have grown up around them. In South Korea, they reach right up to the walls of US bases, by night, they throb with music and neon, by day, they seem to recover from the night before. According to reports, 28 November 2014, they are now the scene of an intriguing legal dispute. More than 120 former prostitutes, who are ageing and poor, are suing not the American authorities but their own government, demanding compensation of $10,000 (£6,360) each. Their argument is that the South Korean government facilitated their work in order to keep American forces happy.
In a community centre next to the US base at Uijeongbu City in South Korea, a group of them gather to explain their case. "We worked all night long. What I want is for the Korean government to recognise that this is a system that it created... and also compensation."
Their argument is not that South Korea compelled them to work as prostitutes - this is not a case of sexual slavery, but that by instituting a system of official and compulsory check-ups on their sexual health, it was complicit, and facilitated a system which now leaves them in poverty. It also, they say, gave them English lessons and courses in "Western etiquette".
The women invariably say that they were driven to prostitution because they were poor, living in a very poor country. They applied for unspecified jobs and then found themselves in bars and brothels having to borrow from the owner, and thus became locked into the system.
"In 1972, I went to an employment placement centre and the counsellor asked me to stand up and sit down. He took a look at me and then promised me a job that would give me a place to stay and food to eat, so I would just be working and my room and board would be taken care of by my boss," says one woman.
They also argue that there was tacit approval because the country needed foreign currency. The prostitutes were reviled as people but the dollars they earned were welcomed.
"There was this talk going round about earning dollars by working in the clubs, and that that would would make you a patriot - somebody who was a hard-working Korean. We did earn a lot of dollars in the camp town," one of the women tells me.
"I accepted a job and went to an establishment. As soon as I arrived I ran away. I ended up getting caught by the club owner and my club owner sold me off to another establishment and it was there that I took my first customer," says one.
But their case is complex. It is true that the South Korean government set up clinics, but these replaced an unofficial network of doctors, some of them poorly qualified, who certified women as free of sexually transmitted diseases. The government is not commenting on the case but it might argue, when the case comes to court, that setting up clinics wasn't facilitating prostitution but trying to protect the women involved.
There were certainly fears in the 1970s that Washington would pull troops out of South Korea.
"I think where the South Korean government has some culpability is that in the 1970s some Korean officials from the central government did go to these camp-towns and try to persuade these women who were working as sex workers to co-operate with the US military command," says Dr Kathy Moon of the Brookings Institution, who wrote Sex Among Allies, the definitive study of prostitution and the US military in South Korea.
"The priority was to keep the US military command happy so they would stay in Korea because there was a threat of pull-outs of US troops."
The priority in the clinics, Moon says, was "maintaining the health and well being of the US troops not the Korean women". The staff were only interested in the women's sexual health, and did not provide treatment for other illnesses.
Moon is at pains to point out that, unlike South Korea's World War Two "comfort women" - who were forced to become sex slaves by the Japanese military - many of these women took a decision to work as prostitutes, however reluctantly. They then become trapped, however.
"Once these women were there, they couldn't get out easily. They were raped continuously, raped by the manager," she says.
"Anything the bar owner deemed necessary for a woman to attract GIs to sell sex - make-up, clothing, some decoration in their hut rooms - was rented out to the women. If the women were ill or if they needed assistance to pay for a funeral for a family member, they would borrow from the bar owner. All of these expenses became part of their debt and unless you paid off this debt you couldn't leave".
Over the years, the attitude of the US military has changed. There is now what US Forces Korea calls "zero tolerance" of servicemen using prostitutes. Military police patrol red light areas, going into bars to seek transgressors. Prostitution has also been illegal in South Korea since 2004 - though nobody doubts that it continues.
The nature of the trade has changed too. When South Korea was a poor country, South Korean women were the sellers of sex around the bases. But today, now that South Korea is an increasingly affluent society, it's largely women from Russia and the Philippines who make up the workforce.
That doesn't diminish the pain and anxiety of the elderly women who now face a comfortless old age. Jang Young-mi, in her late 60s, lives in a grim single bedroom with her three dogs. She worked in a camp-town for two decades and now has only poverty to show for it. "Maybe because I lived for so long with American soldiers, I can't fit in with Koreans," she says. "Why did my life have to turn out this way?"

Some Intresting facts about ATM


ATM के बारे में रोचक तथ्य
भारत में जन्मे थे ATM के आविष्कारक
जॉन शेफर्ड बैरन:
  1. ATM का फुल फार्म Automated tellermachine है
2. कैश निकालने वाली पहली एटीएम 27 जून 1967 में लंदन के बारक्लेज बैंक ने लगाई थी।
3. ATM मशीन कड़ी मेहनत के बाद स्कॉटलैंड केइन्वेंटर जॉन शेफर्ड बैरन ने बनाई थी।
4. खास बात यह है कि मशीन बनाने वाले जॉनशेफर्ड बैरन का जन्म 23 जून 1925 को मेघालय के शिलॉन्ग में हुआ था। उस समय उनके स्कॉटिशपिता विलफ्रिड बैरन चिटगांव पोर्ट कमिश्नर्स केचीफ इंजीनियर थे।
5. बैरन की मृत्यु वर्ष 2010 में 84 वर्ष की उम्रमें हुई।
6. खास बात यह भी है कि बैरन एटीएम का पिन 6 डिजिट का करने के पक्ष में थे, लेकिन उनकी पत्नी ने उनसे कहा कि 6 डिजिट ज्यादा है और लोग इसे याद नहीं रख पाएंगे। इस कारण बाद में उन्होंने चार डिजिट का एटीएम पिन बनाया।आज भी चार डिजिट का ही पिन चलन में है।
7. सोमालिया में देश का पहला एटीएम लगाया गया है। यह मशीन अभी सलाम सोमाली बैंकने एक महंगे होटल में लगाई गई है। अभी इस एटीएम से केवल अमेरिकी डॉलर ही निकाले जा सकेंगे। सोमालिया की अर्थव्यवस्था बहुतही खस्ताहाल है और इसकी वजह से यहां पर बैंकिंगसेक्टर अविकसित है।
8. एक मिनट की देरी होने से आया एटीएमका आइडिया :
1965 में एक दिन बैरन को पैसे की जरूरत थी,लेकिन वे बैंक एक मिनट की देरी से पहुंचे थे। बैंक बंद हो गया था और पैसे नहीं निकाल पाए थे। इसके बाद ही उन्होंने परिकल्पना की कि यदि चॉकलेट निकालने वाली मशीन की तरह पैसे निकालनेवाली मशीन भी हो, जिससे 24 घंटे कैश निकाल सकेंतो कितनी सहूलियत होगी। इसके बाद उन्होंने एटीएम मशीन का निर्माण किया।
9. 1968: कार्ड ईटिंग मशीन :बारक्लेज और अन्य बैंकों ने एक ऐसी एटीएम लगाई, जिसमें पैसा निकालने के लिए कार्ड का इस्तेमाल करना पड़ता था। यह कार्ड बैंक से पहले लेना पड़ता था। एक कार्ड एक बार मशीन में डालने पर बाहर नहीं आता था और हर बार नए कार्ड का इस्तेमाल करना पड़ता था।
10. भारत में पहली बार 1987 में एटीएमकी सुविधा शुरू हुई थी।
11. भारत में पहला एटीएम हॉन्गकॉन्ग एंड शंघाई बैंकिंग कॉर्पोरेशन (एचएसबीसी) ने मुंबई मेंलगाया था।
12. मार्केट रिसर्च फर्म एएम माइंडपॉवरसॉल्यूशन्स के मुताबिक 2015 तक देश में 2.3लाख एटीएम होंगे।
13. दो वारदातों में चोरों ने कुछ ही घंटों में 2 दर्जन से ज्यादा देशों के हजारों एटीएम से 4.5 करोड़ डॉलर यानी करीब 2.45 अरब रुपए चुरा लिए थे।इस काम में कंप्यूटर एक्सपर्ट्स शामिल थे,जिन्होंने हैकिंग के जरिए फाइनैंशल इन्फर्मेशन में हेर- फेर की। इसके अलावा कुछ और लोग भी थे,जिन्होंने एटीएम से पैसे निकाले। 

War Against Ebola ایبولا کیخلاف جنگ


سجاد احمد
ان دنوں عالمی سطح پر ایبولا کی دہشت طاری ہے۔یہ بیماری جسمانی رطوبتوں جیسے خون، پسینہ اور تھوک سے پھیلتی ہے جبکہ موت کے بعد بھی اس وائرس کے جراثیم کچھ دیر تک جسم میں رہتے ہیں اور اس دوران یہ اتنے ہی خطرناک ہوتے ہیں جتنے کسی زندہ مریض میں۔اس بیماری کی عمومی علامات میں تیز بخار، سر درد، جوڑوں میں درد، پٹھوں میں درد، گلے میں درد، کمزوری، معدے میں درد اور بھوک کا ختم ہو جاناشامل ہے۔ بیماری خطرناک مرحلہ میں داخل ہوتی ہے تو مریض کے جسم کے اندر خون بہنے لگتا ہے۔ اس کےساتھ ہی اس کی آنکھوں، کانوں اور ناک سے بھی خون بہنے لگتا ہے۔ بعض مریض خون کی الٹیاں بھی کرتے ہیں اور بعض مریض کھانسی کیساتھ خون تھوکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بعض مریضوں کے پاخانے کیساتھ خون آتا ہے اور جسم پر خسرے کے طرح کے دانے نکل آتے ہیں۔اس لئےے ایبولا کے مریضوں کے لاشوں کو چھونے والوں کو اس وبا سے متاثر ہونے کے بہت زیادہ خدشات لاحق ہوتے ہیں اور وہ عام طور پر حفاظتی لباس پہنتے ہیں۔صحت کے ماہرین کے بقول ایبولا سے ہلاک ہونے والے لوگوں کو فوری طور پر دفن کیا جانا چاہئے تاکہ انفیکشن پھیلنے کے خطرات کم سے کم ہو سکیں۔عالمی ادارہ صحت شاہد ہے کہ گزشتہ محض ایک ہفتہ کے دوران ایبولا وائرس سے متاثرہ ممالک میں اس وباکے 6 سو نئے معاملے سامنے آئے ۔
طبی ماہرین کا عزم:
مغربی افریقہ میں ایبولابیماری سے متاثر افراد کی تعداد بڑھ کربھلے ہی تقریبا16 ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ ہلاک ہونے والے مریضوں کی تعداد5 ہزار 6 سو99 سے تجاوز کرگئی ہے لیکن طبی ماہرین سے اس سے ہار نہیں مانی ہے۔عوام میںخوف کا یہ عالم ہے کہ سیئرا لیون کے شہر کینیما میں گورکنوں نے ایبولا سے ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کو سنبھالنے پر تنخواہ نہ ملنے پر احتجاج کرتے ہوئے لاشوں کو سر عام چھوڑ دیا۔ شہر کے مرکزی اسپتال میں احتجاجی کارکن لاشیں چھوڑکر چلے گئے۔ایک لاش کو اسپتال کے مینیجر کے دفتر کے باہر چھوڑ دیا گیا اور دو لاشوں کواسپتال کے داخلہ کے دروازہ کے باہر رکھ دیا گیا۔محض سیئرا لیون میں ایبولا کی وبا سے تقریباً 1200 ہلاکتیں ہوئیں۔بیماری اتنی شدید ہے کہ ایبولا کے متاثرین کی لاشیں دفنانے والے کارکنوں کو اس وائرس سے متاثر ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتاہے۔جبکہ کینیما نہ صرف سیئرا لیون کا تیسرا بڑا شہر ہے بلکہ مشرقی افریقہ کا بھی اہم شہر ہے اور یہیں پر ایبولا کی وبا نے جڑیں پکڑی تھیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ ہ کہ کارکنوں کو لاشیں دفنانے کیلئے اکتوبر اور نومبر میں اتفاق سے منظور کئے جانے والئے اضافی خطرے کا الاونس ادا نہیں کیا گیاتھا۔
کیا ہے ایبولا؟
عام طور پرلوگوں کواس حقیقت کا علم نہیں ہے کہ یہ ایک نہایت خطرناک اور جان لیواا انفیکشن کی بیماری ہے ، جوتیزی سے ا یک سے دوسرے شخص کو منتقل ہوتی ہے۔ اس وقت 2014 میں افریقی ملک لائبیریا اس کی وبا پھوٹی ہوئی ہے۔ ایبولا وائرس ایک ایسی خطرناک ترین بیماری ہے جسے ’ایبولا ہیمرجک فیور‘Ebola Hemorrhagic Fever بھی کہا جاتا تھا۔ ایبولا بخارمیں مبتلا 90 فیصد افراد کو ہلاکت کا خدشہ لاحق ہوتا ہے۔ اس بیماری میں بھی ویسی ہی علامات پائی جاتی ہیں جو ڈینگی بخار میںپائی جاتی ہیں۔ ڈینگی بخار کی طرح ابھی تک ایبولا کیلئے بھی کوئی ویکسین نہیں بنائی جا سکی۔اس بیماری کیخلاف لڑنے والے عملہ کو ایسا لباس زیب تن کرنا پڑتا ہے جو انتہائی گرم ہوتا ہے۔اس قسم کے ملبوسات کو پہن کر محض سوئٹزرلینڈ جیسے سرد مقام پر ہی رہا جاسکتا ہے۔
کیا ہے علاج؟
طبی ماہرین کے مطابق جس شخص کے بارے میں تصدیق ہو جائے کہ وہ ایبولا وائرس سے لاحق ہونے بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے، اسے فوراً دوسرے انسانوں سے الگ تھلگ کر دینا چاہئے تاکہ بیماری دوسرے انسانوں کو نہ لگ جائے۔ مریض کو ٹھوس غذا نہ دی جائے۔ اسے آکسیجن بھی لگائی جاتی ہے۔ خون کا دباو  یعنی بلڈ پریشر معمول پر رکھنے کی دوائیں بھی دی جاتی ہیں اور اسے خون بھی چڑھایا جاتا ہے۔ اس وائرس سے بچنے کیلئے تاحال کوئی ویکسین موجود نہیں ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان علاقوں کا سفر بالکل نہیں کیا جائے جہاں ایبولا وائرس پایا جاتا ہو یا پھیل چکا ہو۔ حفظانِ صحت کی خدمات انجام دینے والے افراد بھی نقاب لگا کر، دستانے پہن کر اور عینک لگا کر اس وائرس سے بچنے کی تدبیر کر سکتے ہیں۔
کیسے پڑا نام؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سب سے پہلے یہ بیماری وسطیٰ اور مغربی افریقہ کے دور دراز دیہاتوں میں آئی جو کہ برساتی جنگلات کے قریب تھے۔ وائرس پہلے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ اس کے بعد انسانوں سے انسانوں میں پھیلا۔ 1976 میں یہ مرض سب سے پہلے کانگو اور سوڈان میں رپورٹ ہوا۔یہ وائرس افریقی جنگلات میں بیمار جانوروں بن مانس، بندر، چمگادڑ اور دوسرے جانوروں سے انسانوں میں آیا۔1976کے دوران ایبولا وائرس پہلی بار دریا سے 60 میل کے فاصلے پر یامبوکو میں شناخت کیا گیا تھا لئےکن پروفیسر پیٹر پایٹ نے اسے قصبہ کی بجائے دریا کا نام دیا تاکہ قصبہ بیماری کی بدنامی سے محفوظ رہے۔ اس لئے ایبولا وائرس اور ایبولا وائرس بیماری دریائے ایبولا سے موسوم ہیں۔ بعد ازاں اس دریافت کے باوجود کہ دریائے ایبولا یامبوکو گاو ¿ں کے قربت میں نہیں اسکا نام برقرار رہا۔
زیر آزمائش ویکسین:
ایبولاکے خطرناک وائرس کے انسداد کیلئے زیر آزمائش ویکسین کے پہلے مرحلہ کے نتائج مثبت آئے ہیںجس کے بعد محققین نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ وہ اِس مہلک وباکا علاج دریافت کرنے کے مزید ایک قدم قریب پہنچ گئے ۔ امریکی ’نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ‘ یا NIH کے مطابق ایبولا وائرس کے خاتمہ کیلئے تیار کردہ ویکسین کی آزمائش کے پہلے مرحلہ میں اسے20 بالغ اور صحت مند افراد کو مختلف مقداروں میں دیا گیا۔ اس طبّی ٹیسٹ کا حصہ بننے والے تمام کے تمام افراد میں ایبولا وائرس کیخلاف کارآمد ثابت ہونے والے ’اینٹی باڈیز‘ بنیں۔ نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ کے اس طبّی ٹیسٹ کے نتائج بدھ کے روز ’نیو انگلئےنڈ جرنل آف میڈیسن‘ میں شائع ہوئے۔یہ ویکسین ’گلئےکسو اسمتھ کلائن‘ نامی ایک فارماسیوٹیکل کمپنی اور امریکی ’نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز‘ کے اشتراک سے تیار کی جا رہی ہے۔ اس ادارہ کے سربراہ انتھونی فوسی کے بقول’جو ویکسین تیار کی جا رہی ہے، وہ اس وباکے خاتمہ اور مستقبل میں بڑے پیمانے پر پھیلاو  کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔‘
 بڑے ٹیسٹوں کی تیاری:
ان کے بقول انسانوں پر کی جانے والے پہلے طبّی آزمائش کے مثبت نتائج کی بنیاد پر وہ مستقبل قریب میں اسی طرز کے مزید بڑے ٹیسٹ کرنے کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ اس بات کا حتمی طور پر تعین کیا جا سکے کہ آیا یہ ویکسین وائرس کے خاتمہ میں کار آمد ثابت ہو گی تاہم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز کے سربراہ نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ ویکسین ابھی ’فیلڈ‘ میں یا متاثرہ مقامات و ممالک میں استعمال سے کئی ماہ دور ہے۔امریکہ کے ادارہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایبولا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ مغربی افریقی ممالک میں سے ایک لائبیریا کے حکام کیساتھ اس بارے میں مشاورت جاری ہے تا کہ وہاں اگلے مرحلہ کے ٹیسٹ کئے جائیں تاہم ممکنہ ٹیسٹ آئندہ برس ہی ہو سکیں گے۔اس سلسلہ میں وائٹ ہاو ¿س کی جانب سے ویکسین پر کام کرنے والے محققین کی ٹیم کو اس پیش رفت پر مبارکباد پیش کی گئی ۔ وائٹ ہاوس کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر باراک اوباما آئندہ ہفتہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز کے دفتر کا دورہ کریں گے۔یہ امر اہم ہے کہ ایبولا وائرس کے خاتمہ کیلئے زیر آزمائش یہ واحد ویکسین نہیں ہے۔اس کے علاوہ ایک اور ویکسین ہے، جس کا مقصد ایبولا کی ایک مخصوص قسم کو روکنا ہے، یونیورسٹی آف میری لینڈ میں اکتوبر سے زیر آزمائش ہے۔ کینیڈا میں بھی ایک اور ویکسین انسانوں پر ابتدائی آزمائش کے دوران مثبت نتائج ظاہر کر رہی ہے۔
تشخیص 15 منٹ میں ممکن:
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افریقی ملک گنی میں ایبولا وائرس کی تشخیص کیلئے ایک نئے ٹیسٹ کا تجربہ کیا جا رہا ہے جس میں تھوک اور خون کے نمونوں سے اس کا پتہ چلایا جا سکے گا۔شمسی توانائی کے استعمال سے چلنے والئے نئی لئےبارٹری سے مغربی افریقہ میں جس طریقے سے اس وقت ایبولا کی تشخیص کی جا رہی ہے، اس سے 6گنا کم وقت میں ایبولا کی تشخیص ممکن ہو سکے گی۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس کی کم سے کم وقت میں تشخیص سے اس کے مریضوں کے بچنے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور اس وائرس کے پھیلنے کے خدشات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔یہ نیا ٹیسٹ گنی کے شہر کوناکری کے ایبولا کے علاج کے مرکز میں تجرباتی طور پر کیا جائے گا۔روایتی طریقے سے ایبولا کے جراثیم کا پتہ مریض کے خون میں موجود ایبولا وائرس کے جنیاتی اجزا کو ڈھونڈ کر کیا جاتا ہے۔رواں مہینہ کے دوران ہی دہلی میں ایبولا سے متاثر شخص مادہ منویہ کے ٹیسٹ کے بعد ہی شاخت کیا جاسکا تھا۔
مخصوص لیبارٹریوں کی ضرورت:
تحقیق کاروں نے اس بات کو مد نظر رکھا کہ کس طرح دور دراز کے اسپتالوں میں جہاں طبی سہولیات کی اکثر کمی رہتی ہے، وہاں ایبولا کا ٹیسٹ کسی طرح کروایا جائے لیکن اس کیلئے مخصوص لیبارٹریوں کی ضرورت پڑتی ہے جہاں ٹیسٹ کے اجزا کو انتہائی کم درجہ حرارت پر رکھا جا سکے۔کوناکری میں تجرباتی مرحلہ میں ان مریضوں کا نئے طریقہ سے ٹیسٹ کیا جائے گا جن کے بارے میں پہلے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ایبولا سے متاثر ہیں۔شمسی توانائی سے چلنے والے ایک سوٹ کیس کے سائز کی اس نئی لیبارٹری کو ہر جگہ لے جایا جا سکتا ہے، اور اسے سینیگال کے شہر ڈاکار میں پاسچر انسٹی ٹیوٹ کی رہنمائی میں چلایا جا رہا ہے۔اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس لیبارٹری کو کمرہ کے درجہ حرارت پر بھی استعمال میں لایاجاسکتا ہے۔اس منصوبہ کیلئے سرمایہ برطانیہ کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے اور ویلکم ٹرسٹ میڈیکل کا خیراتی ادارہ فراہم کر رہے ہیں۔ویلکم ٹرسٹ کے ڈاکٹر وال سیون کے بقول محض15 منٹ میں ایک قابل اعتبار ٹیسٹ سے ایبولا کی وبا کو کنٹرول کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے جس سے مریضوں کی نشاندہی، انھیں الگ کرنے اور ان کا علاج کرنا ممکن ہو سکے گا۔اس سے مریضوں کے صحت یاب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور ایبولا کا وائرس دوسرے لوگوں تک منتقل ہونے سے روکا جا سکے گا۔‘


War Against Ebola
By: Sajjad Ahmed
A 15-minute blood and saliva test for Ebola is to be trialled in Guinea, it has been announced. According to reports, 28 November 2014, the solar-powered, portable laboratory should deliver results six times faster than tests currently used in West Africa.
The researchers involved say faster diagnosis would increase the chances of survival and reduce transmission of the virus. The trial will take place at an Ebola treatment centre in Conakry, Guinea. Ebola is currently diagnosed by hunting for the virus's genetic material in the blood of a patient. But it requires dedicated laboratories that can keep the components of the test at very low temperatures. Patients in Conakry will still have the proven test, but the new faster method will be trialled at the same time so the results can be compared.
Solar-powered
The project, led by the Pasteur Institute in Dakar, Senegal, uses a 'mobile suitcase laboratory'. It is portable, solar-powered and can be used at room temperature. The project is being funded by the Wellcome Trust medical charity and the UK's Department for International Development. Dr Val Snewin, the international activities manager at the Wellcome Trust, said: "A reliable, 15-minute test that can confirm cases of Ebola would be a key tool for effective management of the Ebola outbreak - allowing patients to be identified, isolated and cared for as soon as possible. "It not only gives patients a better chance of survival, but it prevents transmission of the virus to other people. "This pilot study is particularly promising because researchers have considered how to make the test suitable for use in remote field hospitals, where resources - such as electricity and cold storage, are often in short supply." The UK's International Development Secretary Justine Greening said: "The UK is doing everything possible to help the government of Sierra Leone tackle and ultimately defeat Ebola. "Funding this groundbreaking research will develop new ways of diagnosing suspected cases even more quickly and stop more people suffering from this deadly virus."

JUMAA KE DIN KE AAMAL

1-Jumaa ki raat SURAE DUKHAN padhe para no 25       
 jo shaks jumaa ki raat ye surah padhega uski bakhshish kardi jaaygi """dusree riwayat me hai """subah tak 70 hazar farishte uske liye asyagfar karte hai
(Attargeeb wat tarheeb 1/345

2-Surae kahaf 15 paare me / ise jumaa kee magrib se pehle tak padhle
Rasulullah sallallahu alaihi w sallam ne irshaad farmaya:
Jo shakhs Jum'aa ke din Sura e Kahaf padhega,
Uskey liye eik Jum'aa se dusrey Jum'aa ke darmiyaan eik noor chamakta hoga.
(MUSTADRAK -3392)
DUSRON KO FWD KARNE KI GUZARISH 

 3-Namaze jumaa ke baad foran (orte zohor ke baad)
Surae iklaas (qul huwallahu ahad) 7 martaba
Surae qul auozubi rab bil falaq 7 martaba
Surar qul auozubi rab bin naas 7 martaba
Is se aainda jumaa tak inshaallah burai se mahfooz rahega

4-Namaz ke baad foran  100 martaba
SUBHAANALLA HIL AZEEME WABI HAMDIHI
padhe inshaallah isse khud ke 1 laakh aor walid aor walida ke 24 hazar gunaah maaf honge
AMALUL YOM WALLILAH

 5-Asr ke namaz ke foran baad apni jagah par bethe huwe
ALLAHUMMA SALLI ALAA MUHAMMADI NIN NABIYYIL UMMIYYI WA ALAA AALIHI WA SALLIM TSLEEMA
80  martaba padhe inshaallah 80 saal ki ibadat kaa sawab milega 80  saal ke
gunaah maaf honge
TABRANI
AAJ JUMAA KI RAT HI
Jo koi chahta ho ke apne pyare "mushfiq AAQA sallallahualyhiwasallam ki khwab me ziyarat kare uose chahye ke  amal  jumaa ki raato tak kare Allah se ummid hai ke ziyarat naseeb ho jaaygee
Ye wazifa HAZRAT SHAIKH ABDUL HAQQ MUHADDIS DEHLVI RA ne likha hai aor MOLANA YUNUS PALANPOORI DB ne apne sabaq me naqal kiya hai
DO RAKAT NAFL PADHE
PEHLI RAKAT ME SURAE FATIHA KE BAAD 11 MARTABA AAYATUL KURSI PADHE
DOISRI RAKAT ME SURAE FATIHA KE BAAD 11 MARTABA SURAE IKHLAAS (QUL HU WAL LAAHU AHAD) PADHE
NAMAZ KHATM KARNE KE BAAD 100 MARTABA YE DURUD PADHE
Allahumma salli alaa saiyyidina muhammadi n wa alaa aali saiyyidina muhammadin adada khalqik wa rizaa nafsik wa zinata arshik wa mi daada kalimatik

ﺳﻨﻦ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﺁﺩﺍﺑﻬﺎ


ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﺨﺪﺭﻱ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ
ﻭﺳﻠﻢ : } ﻏﺴﻞ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﺍﺟﺐ ﻋﻠﻰ ﻛﻞ ﻣﺤﺘﻠﻢ { . ‏( ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ‏) ﻭﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻋﻤﺮ
ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ : } ﺇﺫﺍ ﺟﺎﺀ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ
ﻓﻠﻴﻐﺘﺴﻞ { . ‏( ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ‏) ﻭﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ
ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ : } ﻻ ﻳﻐﺘﺴﻞ ﺭﺟﻞ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﻭﻳﺘﻄﻬﺮ ﺑﻤﺎ ﺍﺳﺘﻄﺎﻉ ﻣﻦ ﻃﻬﺮ، ﻭﻳﺪﻫﻦ ﻣﻦ
ﺩﻫﻨﻪ ﺃﻭ ﻳﻤﺲ ﻣﻦ ﻃﻴﺐ ﺑﻴﺘﻪ، ﺛﻢ ﻳﺮﻭﺡ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﻭﻻ ﻳﻔﺮﻕ ﺑﻴﻦ ﺍﺛﻨﻴﻦ، ﺛﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻣﺎ ﻛﺘﺐ
ﻟﻪ، ﺛﻢ ﻳﻨﺼﺖ ﻟﻺﻣﺎﻡ ﺇﺫﺍ ﺗﻜﻠﻢ- ﺇﻻ ﻏﻔﺮ ﻟﻪ ﻣﺎ ﺑﻴﻦ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﺍﻷﺧﺮﻯ { ‏( ﺭﻭﺍﻩ
ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ‏) .
ﺛﺎﻧﻴًﺎ- ﺍﻟﺘﺠﻤﻞ ﻭﺍﻟﺘﻄﻴﺐ :
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﺨﺪﺭﻱ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ : }
ﻋﻠﻰ ﻛﻞ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﻟﻐﺴﻞ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﻭﻳﻠﺒﺲ ﻣﻦ ﺻﺎﻟﺢ ﺛﻴﺎﺑﻪ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻟﻪ ﻃﻴﺐ ﻣﺲ ﻣﻨﻪ { .
‏( ﺭﻭﺍﻩ ﺃﺣﻤﺪ ‏) ﻭﻋﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺃﻧﻪ ﺳﻤﻊ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ
ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻤﻨﺒﺮ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ } : ﻣﺎ ﻋﻠﻰ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﻟﻮ ﺍﺷﺘﺮﻯ ﺛﻮﺑﻴﻦ ﻟﻴﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﺳﻮﻯ
ﺛﻮﺑﻲ ﻣﻬﻨﺘﻪ { . ‏( ﺭﻭﺍﻩ ﺃﺑﻮ ﺩﺍﻭﺩ ‏) ﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺒﺮ : ﺛﻮﺑﻴﻦ : ﻳﺮﻳﺪ ﻗﻤﻴﺼًﺎ ﻭﺭﺩﺍﺀً ﺃﻭ ﺟﺒﺔ
ﻭﺭﺩﺍﺀً .
ﻭﻋﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺍﻟﻔﺎﺭﺳﻲ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ : } ﻻ
ﻳﻐﺘﺴﻞ ﺭﺟﻞ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﻳﺘﻄﻬﺮ ﺑﻤﺎ ﺍﺳﺘﻄﺎﻉ ﻣﻦ ﻃﻬﺮ، ﻭﻳﺪّﻫﻦ ﻣﻦ ﺩﻫﻨﻪ، ﺃﻭ ﻳﻤﺲ ﻣﻦ
ﻃﻴﺐ ﺑﻴﺘﻪ ﺛﻢ ﻳﺮﻭﺡ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﻭﻻ ﻳﻔﺮﻕ ﺑﻴﻦ ﺍﺛﻨﻴﻦ، ﺛﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻣﺎ ﻛﺘﺐ ﻟﻪ، ﺛﻢ ﻳﻨﺼﺖ ﻟﻺﻣﺎﻡ
ﺇﺫﺍ ﺗﻜﻠﻢ - ﺇﻻ ﻏﻔﺮ ﻟﻪ ﻣﺎ ﺑﻴﻦ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﺍﻷﺧﺮﻯ { ‏( ﺭﻭﺍﻩ ﺃﺣﻤﺪ ‏) .
ﺛﺎﻟﺜًﺎ- ﺍﻟﺘﺒﻜﻴﺮ ﻟﻬﺎ :
ﺍﺳﺘﺤﺐ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ ﺍﻟﺘﺒﻜﻴﺮ ﺇﻟﻰ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﻟﻜﻨﻬﻢ ﺍﺧﺘﻠﻔﻮﺍ ﻓﻲ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﺘﺒﻜﻴﺮ؛ ﻓﺬﻫﺐ
ﺟﻤﻬﻮﺭ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ ﺇﻟﻰ ﺃﻧﻪ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﺍﻟﺘﺒﻜﻴﺮ ﻣﻦ ﺃﻭﻝ ﺍﻟﻨﻬﺎﺭ ﺣﺘﻰ ﻗﺎﻝ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﺭﺣﻤﻪ
ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ : ﻟﻮ ﺧﺮﺝ ﺇﻟﻴﻬﺎ ﺑﻌﺪ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﻔﺠﺮ ﻭﻗﺒﻞ ﻃﻠﻮﻉ ﺍﻟﺸﻤﺲ ﻟﻜﺎﻥ ﺣﺴﻨًﺎ . ﻭﺫﻫﺐ ﺍﻹﻣﺎﻡ
ﻣﺎﻟﻚ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﺇﻟﻰ ﺃﻥ ﺍﻟﺘﺒﻜﻴﺮ ﺍﻟﻤﺸﺮﻭﻉ ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﺰﻭﺍﻝ ﻭﻻ ﻳﺸﺮﻉ ﺍﻟﺘﺒﻜﻴﺮ
ﻣﻦ ﺃﻭﻝ ﺍﻟﻨﻬﺎﺭ .
ﺭﺍﺑﻌًﺎ - ﺍﻟﻤﺸﻲ ﻟﻬﺎ ﻋﻠﻰ ﺍﻷﻗﺪﺍﻡ :
ﻟﻘﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ : } ﻭﻣﺸﻰ ﻭﻟﻢ ﻳﺮﻛﺐ ... { ‏( ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺍﻟﺴﻨﻦ
ﻋﻦ ﺃﻭﺱ ﺑﻦ ﺃﻭﺱ ﺍﻟﺜﻘﻔﻲ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ . ‏) ﻭﻟﻤﺎ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺸﻲ ﻣﻦ ﺍﻟﺘﻮﺍﺿﻊ، ﻗﺎﻝ ﺍﻹﻣﺎﻡ
ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﻓﻲ ﺍﻷﻡ : " ﻭﻻ ﺗﺆﺗﻰ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﺇﻻ ﻣﺎﺷﻴًﺎ ."
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺍﻟﻨﻮﻭﻱ : " ﺍﺗﻔﻖ ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﻭﺍﻷﺻﺤﺎﺏ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ ﻋﻠﻰ ﺃﻧﻪ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﻟﻘﺎﺻﺪ
ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﻥ ﻳﻤﺸﻲ ﻭﺃﻥ ﻻ ﻳﺮﻛﺐ ﻓﻲ ﺷﻲﺀ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻘﻪ ﺇﻻ ﻟﻌﺬﺭ ﻛﻤﺮﺽ ﻭﻧﺤﻮﻩ" ، ﻭﺇﻟﻴﻪ ﺫﻫﺐ
ﺍﻟﻤﺤﺪﺛﻮﻥ ﺍﻟﺬﻳﻦ ﺗﺮﺟﻤﻮﺍ ﻟﻠﺤﺪﻳﺚ ﺑﻤﺎ ﻳﺪﻝ ﻋﻠﻰ ﺫﻟﻚ .
ﺧﺎﻣﺴًﺎ : ﺍﻹﻧﺼﺎﺕ ﻟﻠﺨﻄﺒﺔ
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺃﻥ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ : } ﺇﺫﺍ ﻗﻠﺖ
ﻟﺼﺎﺣﺒﻚ : ﺃﻧﺼﺖ، ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﺍﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ- ﻓﻘﺪ ﻟﻐﻮﺕ { ‏( ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ‏) .
ﻭﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺍﻟﺪﺭﺩﺍﺀ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ : } ﺟﻠﺲ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻮﻣًﺎ
ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻤﻨﺒﺮ ﻓﺨﻄﺐ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻭﺗﻼ ﺁﻳﺔ، ﻭﺇﻟﻰ ﺟﻨﺒﻲ ﺃﺑﻲّ، ﻓﻘﻠﺖ ﻟﻪ : ﻳﺎ ﺃﺑﻲّ، ﻣﺘﻰ ﺃﻧﺰﻟﺖ ﻫﺬﻩ
ﺍﻵﻳﺔ ؟ ﻓﺄﺑﻰ ﺃﻥ ﻳﻜﻠﻤﻨﻲ، ﺛﻢ ﺳﺄﻟﺘﻪ ﻓﺄﺑﻰ ﺃﻥ ﻳﻜﻠﻤﻨﻲ، ﺣﺘﻰ ﻧﺰﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ
ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﺃﺑﻲّ : ﻣﺎ ﻟﻚ ﻣﻦ ﺟﻤﻌﺘﻚ ﺇﻻ ﻣﺎ ﻟﻐﻴﺖ ! ﻓﻠﻤﺎ ﺍﻧﺼﺮﻑ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ
ظ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺟﺌﺘﻪ ﻓﺄﺧﺒﺮﺗﻪ، ﻓﻘﺎﻝ : ﺻﺪﻕ ﺃﺑﻲّ، ﻓﺈﺫﺍ ﺳﻤﻌﺖ ﺇﻣﺎﻣﻚ ﻳﺘﻜﻠﻢ ﻓﺄﻧﺼﺖ ﺣﺘﻰ ﻳﻔﺮﻍ {
‏( ﺭﻭﺍﻩ ﺃﺣﻤﺪ ‏) .
ﺳﺎﺩﺳًﺎ : ﺻﻼﺓ ﺭﻛﻌﺘﻲ ﺗﺤﻴﺔ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﻭﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ :
ﻟﺤﺪﻳﺚ ﺟﺎﺑﺮ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ } ﺃﻥ ﺳﻠﻴﻜًﺎ ﺍﻟﻐﻄﻔﺎﻧﻲ ﺩﺧﻞ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ
ﻭﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺨﻄﺐ، ﻓﺠﻠﺲ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ :
" ﻳﺎﺳﻠﻴﻚ، ﻗﻢ ﻓﺎﺭﻛﻊ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﻭﺗﺠﻮﺯ ﻓﻴﻬﻤﺎ " { ، ‏( ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ‏) ﻭﻫﺬﺍ ﻣﺬﻫﺐ ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﻲ
ﻭﺃﺣﻤﺪ ﻭﺇﺳﺤﺎﻕ ﻭﻓﻘﻬﺎﺀ ﺍﻟﻤﺤﺪﺛﻴﻦ .
ﻭﺫﻫﺐ ﺃﺑﻮ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﻣﺎﻟﻚ ﻭﺍﻟﺜﻮﺭﻱ ﻭﺍﻟﻠﻴﺚ ﺇﻟﻰ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺼﻠﻴﻬﻤﺎ ﺇﺫﺍ ﻛﺎﻥ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ
ﻭﺗﺄﻭﻟﻮﺍ ﺣﺪﻳﺚ ﺳﻠﻴﻚ ﺑﺘﺄﻭﻳﻼﺕ ﺑﻌﻴﺪﺓ، ﻭﻟﻌﻠﻪ ﻟﻢ ﻳﺒﻠﻐﻬﻢ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺑﻠﻔﻆ ﺍﻷﻣﺮ ﺍﻟﻌﺎﻡ ﻭﻫﻮ ﻗﻮﻟﻪ
ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ : } ﺇﺫﺍ ﺟﺎﺀ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﺍﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ ﻓﻠﻴﺮﻛﻊ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﻭﻟﻴﺘﺠﻮﺯ
ﻓﻴﻬﻤﺎ { . ‏( ﺭﻭﺍﻩ ﻣﺴﻠﻢ ‏) ﻗﺎﻝ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺍﻟﻨﻮﻭﻱ ﻋﻦ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ : ﻫﺬﺍ ﻧﺺ ﻻ ﻳﺘﻄﺮﻕ ﺇﻟﻴﻪ
ﺗﺄﻭﻳﻞ، ﻭﻻ ﺃﻇﻦ ﻋﺎﻟﻤًﺎ ﻳﺒﻠﻐﻪ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﻠﻔﻆ ﺻﺤﻴﺤًﺎ ﻓﻴﺨﺎﻟﻔﻪ .
322/ ﺳﺎﺑﻌًﺎ - ﺍﻟﺘﻨﻔﻞ ﻗﺒﻞ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﺑﻌﺪﻫﺎ 322 :
ﺃﻣﺎ ﻗﺒﻞ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻓﻼ ﺗﻮﺟﺪ ﺳﻨﺔ ﺭﺍﺗﺒﺔ ﻓﻲ ﺃﺻﺢ ﻗﻮﻟﻲ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ، ﻭﻫﻮ ﻗﻮﻝ ﻣﺎﻟﻚ
ﻭﺃﺣﻤﺪ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺸﻬﻮﺭ ﻋﻨﻪ، ﻭﺃﺣﺪ ﺍﻟﻮﺟﻬﻴﻦ ﻷﺻﺤﺎﺏ ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﻲ . ﻭﻟﻜﻦ ﻳﺴﺘﺤﺐ ﺍﻹﻛﺜﺎﺭ ﻣﻦ
ﺍﻟﻨﻔﻞ ﺍﻟﻤﻄﻠﻖ، ﻭﺫﻟﻚ ﻟﺤﺪﻳﺚ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ :
} ﻻ ﻳﻐﺘﺴﻞ ﺭﺟﻞ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﻭﻳﺘﻄﻬﺮ ﺑﻤﺎ ﺍﺳﺘﻄﺎﻉ ﻣﻦ ﻃﻬﺮ، ﻭﻳﺪّﻫﻦ ﻣﻦ ﺩﻫﻨﻪ ﺃﻭ ﻳﻤﺲ ﻣﻦ
ﻃﻴﺐ ﺑﻴﺘﻪ، ﺛﻢ ﻳﺮﻭﺡ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﻭﻻ ﻳﻔﺮﻕ ﺑﻴﻦ ﺍﺛﻨﻴﻦ، ﺛﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻣﺎ ﻛﺘﺐ ﻟﻪ، ﺛﻢ ﻳﻨﺼﺖ
ﻟﻺﻣﺎﻡ ﺇﺫﺍ ﺗﻜﻠﻢ- ﺇﻻ ﻏﻔﺮ ﻟﻪ ﻣﺎ ﺑﻴﻦ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﺍﻷﺧﺮﻯ { . ‏( ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ‏)
ﻭﺍﻟﺸﺎﻫﺪ ﻓﻴﻪ ﻫﻮ ﻗﻮﻟﻪ : ﺛﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻣﺎ ﻛﺘﺐ ﻟﻪ .
ﻭﺃﻣﺎ ﺑﻌﺪﻫﺎ ﻓﻘﺪ ﺛﺒﺖ ﻓﻲ ﺍﻟﺼﺤﻴﺤﻴﻦ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺍﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ } ﺃﻥ
ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﺑﻌﺪ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﻓﻲ ﺑﻴﺘﻪ { . ‏( ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻴﻪ ‏) ﻛﻤﺎ
ﺛﺒﺖ ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ : } ﺇﺫﺍ
ﺻﻠﻰ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻓﻠﻴﺼﻞ ﺑﻌﺪﻫﺎ ﺃﺭﺑﻊ ﺭﻛﻌﺎﺕ { ‏( ﺭﻭﺍﻩ ﻣﺴﻠﻢ ‏) .
ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺦ ﺍﻹﺳﻼﻡ ﺍﺑﻦ ﺗﻴﻤﻴﺔ : " ﺇﻥ ﺻﻠﻰ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﺻﻠﻰ ﺃﺭﺑﻌًﺎ، ﻭﺇﻥ ﺻﻠﻰ ﻓﻲ
ﺑﻴﺘﻪ ﺻﻠﻰ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ" ﻭﻭﺍﻓﻘﻪ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻘﻴﻢ ﻗﺎﺋﻠًﺎ : "ﻭﻋﻠﻰ ﻫﺬﺍ ﺗﺪﻝ ﺍﻷﺣﺎﺩﻳﺚ، ﻭﻗﺪ ﺫﻛﺮ ﺃﺑﻮ ﺩﺍﻭﺩ
} ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﺇﺫﺍ ﺻﻠﻰ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﺻﻠﻰ ﺃﺭﺑﻌًﺎ ﻭﺇﺫﺍ ﺻﻠﻰ ﻓﻲ ﺑﻴﺘﻪ ﺻﻠﻰ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ "
{ ‏( ﺭﻭﺍﻩ ﺃﺑﻮ ﺩﺍﻭﺩ ‏)
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
مَن جاء منكمُ الجُمُعةَ فَلْيغتسلْ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 894 خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
وقال عليه الصلاة والسلام :
من اغتسَلَ يومَ الجمعةِ ، وتَطَهَّرَ بما استطاع َمن طهرٍ ، ثمَّ ادَّهَنَ أو مسَّ من طيبٍ ، ثمَّ راحَ فلمْ يُفَرِّقْ بينَ اثنينِ ، فَصَلَّى ما كُتِبَ لَهُ ، ثم إذا خرجَ الإمامُ أنصتَ ، غُفِرَ لهُ ما بينَهُ وبينَ الجمعةِ الأخرَى
الراوي: سلمان الفارسي المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 910 خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
 احاديث صحيحة عن فضل يوم الجمعة وأهميته
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
مَنْ اغْبَرَّتْ قدمَاهُ في سبيلِ اللهِ حَرَّمَهُ اللهُ على النارِ .
الراوي: أبو عبس عبدالرحمن بن جبر المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 907 خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
إذا أُقِيمَت الصلاةُ فلا تأتُوهَا تَسعَوْنَ ، وأتُوهَا تمشُونَ ، عليكم السَّكينَةُ ، فمَا أدركْتُمْ فصَلُّوا ، وما فاتَكُم فأتِمُّوا .
الراوي: أبو هريرة المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 908 خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
فضل الإبكار الى المسجد يوم الجمعة :
قال النبي صلى الله عليه وسلم:
ذا كان يومُ الجمُعةِ، وقفَتِ الملائكةُ على بابِ المسجدِ، يَكتُبونَ الأولَ فالأولَ، ومَثَلُ المُهَجِّرِ كمَثَلِ الذي يُهدي بدَنَةً، ثم كالذي يُهدي بقرَةً، ثم كَبشًا، ثم دجاجةً، ثم بَيضةً، فإذا خرَج الإمامُ طَوَوْا صُحُفَهم، ويَستَمِعونَ الذِّكرَ .
الراوي: أبو هريرة المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 929 خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
قال النبي صلى الله عليه وسلم:
- من غسَّلَ يومَ الجمعةِ واغتسلَ ، وبَكَّرَ وابتَكرَ ، ومشى ولم يرْكب ، ودنا منَ الإمامِ ، فاستمعَ ولم يلغُ ، كانَ لَهُ بِكلِّ خطوةٍ عملُ سنةٍ ، أجرُ صيامِها وقيامِها.
الراوي: أوس بن أبي أوس وقيل أوس بن أوس والد عمرو المحدث:الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 898 خلاصة حكم المحدث: صحيح
قال النبي صلى الله عليه وسلم:
إن الله : يبعث الأيام يوم القيامة على هيئتها ، ويبعث الجمعة زهراء منيرة لأهلها ، فيحفون بها كالعروس تهدى إلى كريمها تضيء لهم ، يمشون في ضوئها ، ألوانهم كالثلج بياضا ، رياحهم تسطع كالمسك ، يخوضون في جبال الكافور ، ينظر إليهم الثقلان ما يطرقون تعجبا ، حتى يدخلوا الجنة ، لا يخالطهم أحد إلا المؤذنون المحتسبون
الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث:الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 1872 خلاصة حكم المحدث: صحيح
باب فضل يوم الجمعة ، وقيام الساعة في هذا اليوم :
النبي صلى الله عليه وسلم قال :
خيرُ يومٍ طلعت عليه الشَّمسُ ، يومُ الجمعةِ . فيه خُلِق آدمُ . وفيه أُدخل الجنَّةَ . وفيه أُخرج منها . ولا تقومُ السَّاعةُ إلَّا في يومِ الجمعةِ
الراوي: أبو هريرة المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 854 خلاصة حكم المحدث: صحيح
احاديث صحيحة عن فضل يوم الجمعة وأهميته
باب الاغتسال في يوم الجمعة :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
الغُسلُ يومَ الجمُعةِ واجبٌ على كلِّ مُحتَلِمٍ .
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 858 خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
مَن جاء منكمُ الجُمُعةَ فَلْيغتسلْ .
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 894 خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
احاديث صحيحة عن فضل يوم الجمعة وأهميته
باب السواك يوم الجمعة :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
غسل يوم الجمعة على كل محتلم . وسواك . ويمس من الطيب ما قدر عليه
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 846 خلاصة حكم المحدث: صحيح
باب فضل من استمع وأنصت إلى الخطبة يوم الجمعة :
قال النبي صلى الله عليه وسلم :
" من اغتسل ، ثمَّ أتَى الجمعةَ ، فصلَّى ما قُدِّر له . ثمَّ أنصت حتَّى يفرَغَ من خطبتِه . ثمَّ يصلِّي معه ، غُفر له ما بينه وبين الجمعةِ الأخرَى ، وفضلُ ثلاثةِ أيَّامٍ "
الراوي: أبو هريرة المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 857 خلاصة حكم المحدث: صحيح
باب : ساعة في يوم الجمعة :
قال أبو القاسم صلى الله عليه وسلم :
إنَّ في الجمعةِ لساعةٌ . لا يوافقُها مسلمٌ قائمٌ يصلِّي ، يسألُ اللهَ خيرًا ، إلَّا أعطاه إيَّاه . وقال بيدِه يقلِّلُها ، يزهِّدُها .
الراوي: أبو هريرة المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 852 خلاصة حكم المحدث: صحيح
قال لي عبدُ اللهِ بنُ عمرَ : أسمعتَ أباك يحدِّثُ عن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في شأنِ ساعةِ الجمعةِ؟ قال قلتُ : نعم . سمعتُه يقول : سمعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يقول : " هي ما بين أن يجلسَ الإمامُ إلى أن تُقضى الصلاةُ " .
الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 853 خلاصة حكم المحدث: صحيح
باب ما يقرأ في يوم الجمعة :
عن ابن عباس ، أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كان يقرأُ في صلاةِ الفجرِ ، يومَ الجمعةِ : الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةِ ، وهَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ . وأنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كان يقرأُ ، في صلاةِ الجمعةِ ، سورةُ الجمعةِ والمنافقينَ .
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 879 خلاصة حكم المحدث: صحيح
باب التغليظ في ترك الجمعة :
رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول
لينتهيَنَّ أقوامٌ عن ودعِهم الجُمعاتِ . أو ليختِمَنَّ اللهُ على قلوبِهم . ثمَّ ليكونَنَّ من الغافلين
الراوي: عبدالله بن عمر و أبو هريرة المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 865 خلاصة حكم المحدث: صحيح

خواب غفلت میں سوئے ہوئے مومنو!


خواب غفلت میں سوئے ہوئے مومنو!
عیش وعشرت بڑھانے سے کیا فائدہ؟؟
آنکھ کھولو، اٹھو ! یاد رب کو کرو !!
عمر یوں ہی گنوانے سے کیا فائدہ ؟؟
اپنے رب کو جوانی میں بھولا ہےتو
اور طاقت کے بوتے پہ پھولا ہےتو
جب جوانی ڈھلے گی تو پچھتائے گا
ایسے رونے رلانے سے کیا فائدہ؟؟
تھا حکومت کا فرعون کو بھی نشہ!!
ظلم پر ظلم خلقت پہ کرتارہا!!!!!
جب سمندر میں ڈوبا تو کہنے لگا!!!
اس حکومت کے پانے سے کیا فائدہ؟
کتنا مشہور قصہ ہے شداد کا!!!!!!!
روح جب اس کے تن سے نکالی گئی
مرتا مرتا بھی لوگوں سے کہتا گیا!!
ایسی جنت بنانے سے کیا فائدہ؟؟؟؟
قابل ذکر قصہ ہے نمرود کا!!!!!!
وہ بھی انکار کرتا تھا معبود کا!!!!!
اسکا مغز اک مچھر نے کھا کر کہا!!
یوں بڑائی جتانے سے کیا فائدہ؟؟؟
شاعر: احسان محسن
ناقل: نام کا کیا کام۔

Ebola vaccine 'promising' ایبولا وائرس کے خلاف ویکسین تیار



طبعی شعبہ میں ہلچل، انسانوں پر پہلا تجربہ کامیاب
ایبولا وائرس کے انسداد کیلئے زیر آزمائش ویکسین کے پہلے مرحلے کے نتائج مثبت آئے ہیں، جس کے بعد محققین نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ وہ اِس مہلک وباکا علاج دریافت کرنے کے مزید ایک قدم قریب پہنچ گئے ہیں۔ امریکی ’نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ‘ یا NIH کے مطابق ایبولا وائرس کے خاتمہ کیلئے تیار کردہ ویکسین کی آزمائش کے پہلے مرحلے میں اسے بیس بالغ اور صحت مند افراد کو مختلف مقداروں میں دیا گیا۔ اس طبّی ٹیسٹ کا حصہ بننے والے تمام کے تمام افراد میں ایبولا وائرس کے خلاف کارآمد ثابت ہونے والی ’اینٹی باڈیز‘ بنیں۔ نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ کے اس طبّی ٹیسٹ کے نتائج بدھ کے روز ’نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن‘ میں شائع ہوئے۔یہ ویکسین ’گلیکسو اسمتھ کلائن‘ نامی ایک فارماسیوٹیکل کمپنی اور امریکی ’نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز‘ کے اشتراک سے تیار کی جا رہی ہے۔ اس ادارہ کے سربراہ انتھونی فوسی کے بقول’جو ویکسین تیار کی جا رہی ہے، وہ اس وباکے خاتمہ اور مستقبل میں بڑے پیمانے پر پھیلاو ¿ کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔‘ ان کے بقول انسانوں پر کی جانے والی پہلی طبّی آزمائش کے مثبت نتائج کی بنیاد پر وہ مستقبل قریب میں اسی طرز کے مزید بڑے ٹیسٹ کرنے کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ اس بات کا حتمی طور پر تعین کیا جا سکے کہ آیا یہ ویکسین وائرس کے خاتمہ میں کار آمد ثابت ہو گی تاہم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز کے سربراہ نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ ویکسین ابھی ’فیلڈ‘ میں یا متاثرہ مقامات و ممالک میں استعمال سے کئی ماہ دور ہے۔امریکہ کے ادارہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایبولا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ مغربی افریقی ممالک میں سے ایک لائبیریا کے حکام کے ساتھ اس بارے میں مشاورت جاری ہے تا کہ وہاں اگلے مرحلہ کے ٹیسٹ کئے جائیں۔ تاہم ممکنہ ٹیسٹ آئندہ برس ہی ہو سکیں گے۔واضح رہے کہ وائٹ ہاو ¿س کی جانب سے ویکسین پر کام کرنے والے محققین کی ٹیم کو اس پیش رفت پر مبارک باد پیش کی گئی ہے۔ وائٹ ہاو ¿س کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر باراک اوباما آئندہ ہفتے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایلرجی اینڈ انفکشس ڈیزیز کے دفتر کا دورہ کریں گے۔یہ امر اہم ہے کہ ایبولا وائرس کے خاتمے کیلئے زیر آزمائش یہ واحد ویکسین نہیں ہے۔ ایک اور ویکسین، جس کا مقصد ایبولا کی ایک مخصوص قسم کو روکنا ہے، یونیورسٹی آف میری لینڈ میں اکتوبر سے زیر آزمائش ہے۔ کینیڈا میں بھی ایک اور ویکسین انسانوں پر ابتدائی آزمائش کے دوران مثبت نتائج ظاہر کر رہی ہے۔دریں اثناعالمی ادارہ صحت کے مطابق گزشتہ صرف ایک ہفتہ کے دوران ایبولا وائرس سے متاثرہ ممالک میں اس وباکے 6 سو نئے کیس سامنے آئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق مغربی افریقہ میں اس خطرناک بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد اب بڑھ کر تقریبا16 ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ ہلاک ہونے والے مریضوں کی تعداد5 ہزار 6 سو99 ہو گئی ہے۔

Ebola vaccine 'promising' 
 The first human trial of an experimental vaccine against Ebola suggests that it is safe and may help the immune system to combat the virus. According to reports, twenty volunteers were immunised in the United States. Scientists at the US National Institutes of Health (NIH) described the results as "promising".
The research is published in the New England Journal of Medicine (NEJM).
None of those immunised suffered major side-effects and all produced antibodies.
Dr Anthony Fauci of the NIH told the BBC: "On safety and on the ability to produce an appropriate immune response we can call this trial an unqualified success, even though it was an early Phase One trial."
The volunteers were divided into two groups, receiving either a low or high dose. The antibody response was stronger among those receiving the higher dose.
The investigators found that seven of the high dose and two of the lose dose volunteers produced T-cell immune responses, which may be important in protection against Ebola viruses.
The vaccine uses a chimpanzee cold virus which has been genetically engineered to carry a non-infectious Ebola protein on its surface.
A health worker in Conakry, Guinea, wearing protective clothing A health worker in Conakry, Guinea, wearing protective clothing to treat victims
There are four trials underway of this experimental vaccine.
The US vaccine is bivalent - aimed at giving protection against the Sudan and Zaire strains of Ebola. It is the latter which is responsible for the current outbreak.
Trials of a monovalent vaccine - against the Zaire strain - are also underway in Oxford, Mali and Switzerland.
If these also yield positive results then the monovalent vaccine will be offered to thousands of health workers in west Africa.
Dr Fauci said: "It will be this large Phase Two / Three trial in west Africa which will show whether the vaccine works and is really safe."
He added: "If the outbreak is still is still going on six months from now and the vaccine at that point is shown to be effective, it could have a very positive impact on the current epidemic."
But he said the long-term aim was to produce a vaccine which would protect against future outbreaks.
If the vaccine does work, it is unclear how long the protection would last.
Indemnity agreement
These kinds of questions are usually settled during the early stages of human trials.
But such is the pressing humanitarian need for something which protects against Ebola, the whole trial process is being accelerated at unprecedented speed.
In an editorial in the NEJM Dr Daniel Bausch said that while the trial left many questions unanswered, an Ebola vaccine was "one step closer".
The experimental vaccine is being manufactured by the British drugs giant GlaxoSmithKline (GSK).
The company says it can produce one million doses a month by the end of 2015.
This will require a significant financial outlay. It is asking for an indemnity agreement in case problems such as unforeseen side effects were to emerge in the future.
GSK's chief executive Sir Andrew Witty told the BBC: "We are not waiting for that to be settled [but] it is obvious there are some risks that companies should not be expected to carry on their own."

Visitors

Flag Counter